Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

اتوار، 27 جولائی، 2025

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا

H1,حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی 


(H2) عہدِ خلفائے راشدین میں کردار


(H3) حدیث کی روایت


(H2) علم و حدیث میں مقام



(H2) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ


H3,حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وصال


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق پوچھے جانے والے H3,سوالات اور جوابات 





تعارف ۔خلاصہ ۔اہمیت 


 ‎سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء–

‎ وفات: 13 جولائی 678ء) 

‎رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے

‎۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔


سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا: حیات، فضائل اور خدمات


تعارف


سیدہ عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا (614ء – 678ء) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ اور اُم المومنین کے لقب سے معروف ہیں۔ آپ اسلام کی ابتدائی تاریخ کی ایک عظیم ہستی ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کی ترویج، حدیث کی روایت اور امت کی رہنمائی میں نمایاں کردار ادا کیا۔



---


ابتدائی زندگی


سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ آپ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، جو رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھی اور پہلے خلیفہ تھے۔



---


رسول اللہ ﷺ کی زوجہ


سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے ہوا۔


آپ کو "اُم المومنین" کا شرف حاصل ہوا۔


آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئی اہم مواقع دیکھے اور دین کے بارے میں براہِ راست علم حاصل کیا۔




---


علم و حدیث میں مقام


آپ حدیث کے بڑے راویوں میں شامل ہیں۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ احادیث آپ سے مروی ہیں۔


فقہ، تفسیر اور دین کے مسائل میں آپ کا علم نمایاں تھا۔




---


عہدِ خلفائے راشدین میں کردار


رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ نے 47 سال زندگی گزاری۔ اس دوران:


آپ نے اسلامی فتوحات اور خلافت کے اہم ادوار دیکھے۔


مسلمانوں کو علمی اور دینی رہنمائی فراہم کی۔


بہت سے صحابہ اور تابعین نے آپ سے علم حاصل کیا۔




---


جنگِ جمل اور تاریخی پس منظر


جنگِ جمل کے واقعات میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر آتا ہے۔


تاہم علما کے مطابق ان روایات میں بعض غیر معتبر راوی بھی شامل ہیں۔


صحیح عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا احترام اور محبت ایمان کا حصہ ہے۔




---


وصال


آپ کا وصال 13 جولائی 678ء کو مدینہ منورہ میں ہوا۔


آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔




---


مناقب و فضائل


آپ کو "عائشہ صدیقہ" کہا جاتا ہے۔


علم و تقویٰ، زہد و عبادت اور خدمتِ دین میں آپ کی شان نمایاں ہے۔


آپ کی زندگی امت مسلمہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔




---


❓FAQs (اکثر پوچھے جانے والے سوالات)


Q1: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کس لقب سے یاد کیا جاتا ہے؟

A1: آپ کو "اُم المومنین" اور "عائشہ صدیقہ" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔


Q2: سب سے زیادہ احادیث کس نے روایت کیں؟

A2: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سب سے زیادہ احادیث روایت کیں، اس کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقام ہے۔


Q3: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کب ہوئی؟

A3: آپ کا وصال 13 جولائی 678ء کو مدینہ منورہ میں ہوا۔


Q4:

 سیدہ عائشہ رضی  اللہ عنہا کے فضائل کیا ہیں ؟

A4: آپ علم، تقویٰ، حدیث کی روایت اور امت کی رہنمائی میں بے مثال تھیں۔

حضرت خدیجہ الکبریٰ



حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی پہلی زوجہ اور سب سے پہلی مومنہ خاتون تھیں۔ آپ کی سیرت، فضائل، اسلام کے لیے خدمات اور قربانیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات اس بلاگ میں پڑھیں۔




حضرت خدیجہ علیہ السلام کی زندگی کا تعارف 


 ‎خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء – 

‎وفات: 30 اپریل 619ء)

‎ مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون تھیں جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا، جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ ا


‎---


(H1) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا: سیرت، فضائل اور خدمات



---


(H2) تعارف


حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا (556ء – 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار اور عالی نسب خاتون تھیں۔ آپ کو طاہرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ اسلام قبول کرنے والی سب سے پہلی خاتون اور نبی کریم ﷺ کی پہلی زوجہ تھیں۔



---


(H2) نسب اور ابتدائی زندگی


(H3) خاندان اور پس منظر


نام: خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ


پیدائش: 556ء مکہ مکرمہ میں


لقب: طاہرہ (پاکیزہ سیرت والی خاتون)




---


(H2) نبی کریم ﷺ سے نکاح


(H3) تجارتی شراکت داری


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کو اپنے تجارتی قافلوں کی نگرانی پر مامور کیا۔ آپ ﷺ کی دیانت، صداقت اور اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر نکاح کا پیغام دیا۔


(H3) نکاح اور ازدواجی زندگی


نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر: 40 سال


نبی کریم ﷺ کی عمر: 25 سال


ازدواجی زندگی: 25 سال تک نبی کریم ﷺ کی اکلوتی زوجہ رہیں۔




---


(H2) سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی


حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور نبی کریم ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔ آپ اسلام کی پہلی مومنہ اور ام المومنین ہیں۔



---


(H2) اولاد


زینب رضی اللہ عنہا


رقیہ رضی اللہ عنہا


ام کلثوم رضی اللہ عنہا


فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا

(بیٹے قاسم اور عبد اللہ بھی پیدا ہوئے مگر بچپن میں وفات پا گئے۔)




---


(H2) مشکلات میں ساتھ


(H3) حمایت اور قربانیاں


اسلام کے ابتدائی دنوں میں نبی کریم ﷺ کی حوصلہ افزائی کی۔


شعب ابی طالب کے سخت محاصرہ میں شریک رہیں۔


اپنی دولت اسلام کی خدمت میں وقف کر دی۔




---


(H2) وفات


سنہ: 10 نبوی، رمضان المبارک میں


تدفین: جنت المعلیٰ (مکہ مکرمہ)


یہ سال تاریخ میں عام الحزن (غم کا سال) کہلایا۔




---


(H2) فضائل و مناقب


سب سے پہلی مومنہ خاتون


نبی کریم ﷺ کی سب سے بڑی غمگسار ساتھی


"جنت کی عورتوں کی سردار" کا شرف حاصل ہے


نبی کریم ﷺ ہمیشہ ان کی یاد کرتے اور تعریف فرماتے تھے




---


(H2) ❓FAQs


(H3) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو کون سا لقب دیا گیا تھا؟


انہیں "طاہرہ" (پاکیزہ خاتون) اور "ام المومنین" کہا جاتا ہے۔


(H3) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شادی کس عمر میں ہوئی؟


آپ کی عمر 40 سال تھی جبکہ نبی کریم ﷺ کی عمر 25 سال تھی۔


(H3) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے کیا کارنامہ سرانجام دیا؟


آپ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون تھیں۔


(H3) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کب اور کہاں ہوئی؟


آپ 619ء (10 نبوی) میں رمضان المبارک کے مہینے میں وفات پا گئیں اور جنت المعلیٰ، مکہ میں دفن ہوئیں۔

حضرت امام حسن


حضرت امام حسن ‎ولادت اور خاندان: 


 حضرت امام حسن اخلاق و اوصاف:  

 اولاد 


‎امام حسن علیہ السلام کی کئی اولادیں تھیں جن میں قاسم، عبداللہ، حسن مثنیٰ، فاطمہ اور ام کلثوم مشہور ہیں۔ 

‎مدفن:امام حسن علیہ السلام


‎واقعہ کی تفصیل:


‎حضرت حسن کی شہادت ایک المیہ واقعہ





 حضرت امام حسن علیہ السّلام کی زندگی 


تعارف اور فضیلت 


‎حضرت امام حسن علیہ السلام کی زندگی بہت اہم اور قابلِ تقلید ہے۔ آپ حضرت علی علیہ السلام اور سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بڑے بیٹے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے تھے۔ آپ کی پیدائش 3 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا منصب سنبھالا۔ آپ نے اپنے دور امامت میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا اور بالآخر معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں زہر سے شہید ہوئے۔ آپ کی شہادت 50 ہجری میں ہوئی۔ 

‎ولادت اور خاندان:

‎امام حسن علیہ السلام کی پیدائش 3 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

‎آپ کے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تھیں۔

‎آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے تھے۔ 

‎امامت اور دورِ حکومت:

‎امام حسن علیہ السلام نے 40 ہجری میں اپنے والد حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا منصب سنبھالا۔

‎اس وقت مسلمانوں میں خانہ جنگی کا دور دورہ تھا۔

‎معاویہ بن ابی سفیان نے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور امام حسن علیہ السلام کے ساتھ جنگ کی۔

‎امام حسن علیہ السلام نے مسلمانوں کے اتحاد اور امن کو برقرار رکھنے کے لیے معاویہ کے ساتھ صلح کر لی۔

‎اس صلح نامے میں یہ طے پایا تھا کہ معاویہ کے بعد خلافت امام حسن علیہ السلام کو ملے گی، لیکن معاویہ نے اس شرط کو پورا نہیں کیا۔ 

‎شہادت:

‎امام حسن علیہ السلام 50 ہجری میں زہر سے شہید ہوئے۔

‎معاویہ بن ابی سفیان نے اپنی بیوی جعدہ بنت اشعث کو لالچ دے کر امام حسن علیہ السلام کو زہر دلوایا تھا۔

‎آپ کی شہادت مدینہ منورہ میں ہوئی۔ 

‎اخلاق و اوصاف:

‎امام حسن علیہ السلام بہت ہی سخی، عابد اور زاہد تھے۔

‎آپ ہمیشہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے تھے۔

‎آپ کو عبادت اور ذکر الٰہی کا بہت شوق تھا۔

‎آپ نے ہمیشہ حق اور انصاف کا ساتھ دیا۔

‎آپ کی زندگی مسلمانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ 

‎اولاد:

‎امام حسن علیہ السلام کی کئی اولادیں تھیں جن میں قاسم، عبداللہ، حسن مثنیٰ، فاطمہ اور ام کلثوم مشہور ہیں۔ 

‎مدفن:

‎امام حسن علیہ السلام کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ 

‎حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایک المیہ ہے جو 670ء میں پیش آیا۔ انہیں ان کی اہلیہ جعدہ بنت اشعث نے زہر دیا، جو کہ معاویہ کے اکسانے پر یہ کام کرنے پر رضامند ہوئیں۔ اس زہر کے نتیجے میں حضرت حسن کی طبیعت بگڑ گئی اور بالآخر وہ شہید ہو گئے۔ 

‎حضرت حسن کی شہادت کے بعد مدینہ میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی، بازار بند ہو گئے تھے اور ہر طرف غم و اندوہ کی کیفیت تھی۔ آپ کی وفات پر بنی ہاشم کی خواتین نے ایک مہینے تک سوگ منایا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں فریاد کرتے تھے اور لوگوں کو اس عظیم سانحہ پر رونے کی تلقین کرتے تھے۔ حضرت حسن کے جنازے میں لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ اس سے پہلے مدینہ میں کم دیکھنے میں آیا تھا۔ 

‎حضرت حسن کی شہادت ایک ایسا واقعہ ہے جس نے تاریخ اسلام میں ایک گہرا اثر چھوڑا ہے۔ آپ کی شہادت سے جہاں ایک طرف مسلمانوں میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی تھی، وہیں دوسری طرف آپ کی حلم و بردباری اور صبر و تحمل کی مثالیں بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئیں۔ 

‎واقعہ کی تفصیل:

‎حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ان کی اہلیہ جعدہ بنت اشعث نے زہر دیا تھا۔

‎جعدہ کو معاویہ نے اس کام کے لیے اکسایا تھا، اور اس کے بدلے میں اسے یزید سے شادی کا وعدہ دیا گیا تھا۔

‎زہر کے اثر سے حضرت حسن کی طبیعت بگڑتی گئی اور وہ شہید ہو گئے۔

‎ان کی شہادت کے بعد مدینہ میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی اور بازار بند ہو گئے۔

‎جنازے میں لوگوں کا ہجوم تھا اور بنی ہاشم کی خواتین نے ایک مہینے تک سوگ منایا۔ 

‎اہم نکات:

‎حضرت حسن کی شہادت ایک المیہ واقعہ تھا۔

‎انہیں ان کی اہلیہ جعدہ نے زہر دیا تھا۔

‎معاویہ نے جعدہ کو اکسایا تھا۔

‎حضرت حسن کی شہادت کے بعد مدینہ میں غم و اندوہ کی کیفیت تھی۔ 

FAQ (سوالات و جوابات)


سوال 1: حضرت امام حسن علیہ السلام کون تھے؟

جواب: حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت علی علیہ السلام اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بڑے بیٹے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے تھے۔


سوال 2: حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت کب ہوئی؟

جواب: آپ کی ولادت 3 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔


سوال 3: امام حسن علیہ السلام نے امامت کب سنبھالی؟

جواب: 40 ہجری میں حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن علیہ السلام نے امامت سنبھالی۔


سوال 4: امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟

جواب: مسلمانوں کے درمیان خونریزی اور خانہ جنگی کو روکنے اور امت کو متحد رکھنے کے لیے امام حسن علیہ السلام نے صلح کی۔


سوال 5: امام حسن علیہ السلام کی شہادت کیسے ہوئی؟

جواب: 50 ہجری میں آپ کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔ یہ سازش معاویہ کی تھی اور جعدہ بنت اشعث نے یہ عمل انجام دیا۔


سوال 6: امام حسن علیہ السلام کہاں دفن ہیں؟

جواب: آپ کو مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔


سوال 7: امام حسن علیہ السلام کے اخلاق و اوصاف کیسے تھے؟

جواب: آپ نہایت سخی، عابد اور زاہد تھے۔ غریبوں کی مدد کرنا، عبادت میں مشغول رہنا اور ہمیشہ انصاف کا ساتھ دینا آپ کی نمایاں صفات تھیں۔


سوال 8: امام حسن علیہ السلام کی اولاد میں کون مشہور ہیں؟

جواب: آپ کی اولاد میں قاسم، عبداللہ، حسن مثنیٰ، فاطم

ہ اور ام کلثوم مشہور ہیں۔

حضرت امام حسین


H1, امام حسین علیہ السلام۔ ولادت اور خاندان: ‎


H2, امام حسین علیہ السلام کا تعارف اور فضیلت

H2,حضرت امام حسین علیہ السلام کی شادی 

:

 حضرت امام حسین علیہ السلام قربانی ‎ 

H2,حضرت امام حسین 


H2,علیہ السلام کی قربانی سے سبق



‎امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک عظیم قربانی تھی جو انہوں نے حق اور انصاف کے لیے دی۔ ان کی شہادت نے مسلمانوں کو ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کا درس دیا۔ واقعہ کربلا آج بھی مسلمانوں کے لیے ایک مثال ہے اور انہیں سچائی اور انصاف پر قائم رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔




حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعارف اور فضیلت 



 حضرت امام حسین علیہ السلام، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کے چھوٹے بیٹے تھے۔ وہ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں اپنے خاندان اور ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ ان کی شہادت تاریخ اسلام کا ایک اہم واقعہ ہے، جسے واقعہ کربلا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے

‎ حضرت امام حسین علیہ السلام۔ ولادت اور خاندان: ‎

‎امام حسین علیہ السلام 10 شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حضرت علی علیہ السلام، جو مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ تھے، اور والدہ حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام، جو پیغمبر اسلام کی بیٹی تھیں۔ آپ کے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام تھے۔ 

‎شہادت: حضرت امام حسین علیہ السلام 

‎امام حسین علیہ السلام نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کیا، جو اس وقت کے خلیفہ تھے۔ یزید کی فوج نے 10 محرم الحرام 61 ہجری کو کربلا کے مقام پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں پر حملہ کیا۔ اس جنگ میں امام حسین علیہ السلام اپنے 72 ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔ اس واقعے کو واقعہ کربلا کہا جاتا ہے اور یہ واقعہ مسلمانوں کے لئے ایک غم انگیز دن ہے۔

‎ حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی سے سبق

‎امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک عظیم قربانی تھی جو انہوں نے حق اور انصاف کے لیے دی۔ ان کی شہادت نے مسلمانوں کو ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کا درس دیا۔ واقعہ کربلا آج بھی مسلمانوں کے لیے ایک مثال ہے اور انہیں سچائی اور انصاف پر قائم رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔

‎حضرت امام حسین علیہ السلام کی شادی: 

‎حضرت امام حسین علیہ السلام کی متعدد بیویاں تھیں۔  شہر بانو، رباب بنت عمران القیس، ام اسحاق، اور ام لیلیٰ شامل ہیں۔  شہر بانو کو امام سجاد علیہ السلام کی والدہ بھی مانا جاتا ہے۔ 

‎ ان کی چند بیویوں کے بارے میں کچھ اور تفصیل یہ ہے:

‎ شہر بانو: وہ ایک فارسی شہزادی تھی، جو فارس کے آخری ساسانی بادشاہ یزد گرد کی بیٹی تھی۔  انہیں امام حسین کی بیوی اور امام سجاد کی والدہ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ 

‎ رباب بنت عمرہ القیس: وہ امام حسین کی پہلی بیوی تھیں۔  اس سے دو بچے پیدا ہوئے، سکینہ اور عبد اللہ (علی الاصغر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)۔ 

📌 FAQ (اکثر پوچھے جانے والے سوالات):


سوال 1: حضرت امام حسین علیہ السلام کون تھے؟

جواب: حضرت امام حسین علیہ السلام، پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے نواسے اور حضرت علی علیہ السلام و حضرت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کے چھوٹے بیٹے تھے۔


سوال 2: امام حسین علیہ السلام کی ولادت کب اور کہاں ہوئی؟

جواب: امام حسین علیہ السلام 10 شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔


سوال 3: واقعہ کربلا کب پیش آیا؟

جواب: واقعہ کربلا 10 محرم الحرام 61 ہجری کو پیش آیا جب یزید کی فوج نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا۔


سوال 4: امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کیوں کیا؟

جواب: امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت اس لیے قبول نہیں کی کیونکہ یزید ظلم اور ناانصافی پر مبنی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔


سوال 5: امام حسین علیہ السلام کی بیویاں کون تھیں؟

جواب: امام حسین علیہ السلام کی بیویوں میں شہر بانو (امام سجاد کی والدہ)، رباب بنت عمرہ القیس (سیدہ سکینہ اور علی اصغر کی والدہ)، ام اسحاق، اور ام لیلیٰ شامل تھیں۔


سوال 6: امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: امام حسین علیہ السلام کی شہادت ظلم کے خلاف اور حق و انصاف کے قیام کے لیے ایک عظیم قربانی ہے، جو آج بھی مسلمانوں کو حق پر قائم رہن


ے کی ترغیب دیتی ہے



حضرت فاطمہ الزہرا


حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی زندگی، خصوصیات، عبادت، سخاوت، اور شہادت کی تفصیل جانیں۔ اہل بیت کے گھر پر حملے اور تاریخی واقعات کے حوالے۔ ان کی قبر، القاب اور فضائل کے بارے میں مکمل بلاگ۔



حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا


حضرت فاطمہ الزہرا کی شہادت


فاطمہ الزہرا کی قبر کہاں ہے


سیدہ فاطمہ الزہرا کے فضائل


اہل بیت اطہار


حضرت علی اور فاطمہ الزہرا


دروازہ جلانے کا واقعہ


صحیح بخاری حدیث فاطمہ الزہرا


خواتین جنت کی سردار


حضرت فاطمہ کے القاب




حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شہادت – ایک تاریخی و روحانی جائزہ



---

تعارف


حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ، اور اہل بیت اطہار کی عظیم ہستی ہیں۔ آپ کو سیدہ نساء العالمین اور خواتینِ جنت کی سردار کے القاب ملے۔ ان کی زندگی پاکیزگی، صبر، عبادت اور سخاوت کا عملی نمونہ ہے۔


---

حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ولادت و نسب


نام: فاطمہ بنت محمد ﷺ


لقب: زہرا، بتول، سیدہ نساء العالمین، ام ابیھا


والدہ: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا


پیدائش: مکہ مکرمہ، 605ء




---

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیات


عفت و پاکیزگی


آپ کی پوری زندگی حیاء، عفت اور طہارت کی علامت تھی۔

عبادت الٰہی


آپ کثرت سے نماز و دعا میں مشغول رہتی تھیں۔

سخاوت


غرباء اور محتاجوں کی مدد میں ہمیشہ پیش پیش رہیں۔

صبر و رضا


سخت ترین حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

خاندان کی خدمت


حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بہترین زوجہ اور حسن و حسین علیہم السلام کی شفیق والدہ تھیں۔


---

شہادت کا پس منظر


رسول اللہ ﷺ کے وصال (28 صفر 11 ہجری) کے بعد خلافت کا مسئلہ سامنے آیا۔ اہل بیت کے گھر پر بیعت لینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔


---

واقعۂ دروازہ اور شہادت کی تفصیل


اہل بیت کا گھر


اہل بیت علیہم السلام کا گھر قرآن میں بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ (النور: 36) کہلایا، یعنی عزت و احترام والا گھر۔

بیعت کے لیے دباؤ


تاریخ طبری کے مطابق، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"گھر سے باہر نکلو اور بیعت کرو، ورنہ میں آگ لگا دوں گا۔"

(تاریخ طبری، ج 3، ص 202)


دروازے پر حملہ


دروازہ دھکیلا گیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دروازے کے پیچھے تھیں۔

اس واقعے کے نتیجے میں آپ زخمی ہوئیں اور محسن نامی بچہ شہید ہوا۔


وفات


آپ 75 یا 95 دن بعد، 3 جمادی الثانی 11 ہجری کو شہید ہوئیں۔

تدفین رات کے وقت کی گئی، اور قبر مبارک کے بارے میں مختلف روایات ہیں:

جنت البقیع

اپنے گھر میں

مسجد نبوی میں منبر اور قبر رسول ﷺ کے درمیان




---

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی


صحیح بخاری (حدیث 4240) کے مطابق:
"فاطمہ (س) ابوبکر سے ناراض رہیں اور وفات تک ان سے بات نہ کی۔"


---

اہم حوالہ جات


1. تاریخ طبری، جلد 3، صفحہ 202


2. الامامة و السیاسة، ابن قتیبہ دینوری، جلد 1، صفحہ 30


3. المصنف ابن ابی شیبہ، جلد 8، صفحہ 572


4. صحیح بخاری، حدیث 4240


5. بحار الانوار، جلد 28 و 43




---

❓ FAQ – سوالات و جوابات


حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شہادت کب ہوئی؟


آپ 3 جمادی الثانی 11 ہجری (28 اگست 632ء) کو مدینہ میں شہید ہوئیں۔

حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی عمر وفات کے وقت کتنی تھی؟


آپ کی عمر شہادت کے وقت تقریباً 28 سال تھی۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کن القاب سے یاد کیا جاتا ہے؟


زہرا، بتول، ام ابیھا، سیدہ نساء العالمین، طاہرہ۔

حضرت فاطمہ الزہرا کی قبر کہاں ہے؟

اس بارے میں مختلف روایات ہیں:

جنت البقیع

اپنے گھر میں

یا مسجد نبوی میں منبر اور قبر رسول ﷺ کے درمیان


حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سب سے بڑی خصوصیت کیا تھی؟


آپ صبر، عبادت، سخاوت اور اہل بیت کی خدمت کا عظیم نمونہ تھیں۔

🌿 دعا اور پیغام


یا اللہ! ہمیں حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرت سے سبق لینے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں عفت و پاکیزگی، عبادت، صبر، سخاوت اور علم کے راستے پر چلنے والا بنا۔ ہمیں اہل بیت اطہار سے محبت اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ہدایت دے۔

پیغام:

حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی زندگی ہر مسلمان کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ان کی شہادت صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ امت کے لیے ایک سبق ہے کہ حق کی راہ میں قربانی دینا ایمان کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کو ان کے نقشِ قدم پر استوار کریں۔

محرم المحرم کی فضیلت



 H1,محرم الحرام کی فضیلت


H2,یوم عاشورہ کے اعمال


H2,محرم الحرام کا روزہ


H3,عاشورہ کی اہمیت


H3,امام حسینؓ کی قربانی


H3,کربلا کا واقعہ


H4,محرم الحرام کی دعائیں


H4,عاشورہ کے دن کے مستحب اعمال








"محرم الحرام کی فضیلت اور یوم عاشورہ کی اہمیت | مستحب اعمال اور تاریخی واقعات"



 

محرم الحرام کی فضیلت اور یوم عاشورہ کی اہمیت


محرم الحرام کیا ہے؟


محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جو نہایت مقدس اور بابرکت سمجھا جاتا ہے۔ لفظ "محرم" کا مطلب ہے عزت اور احترام، اسی لیے اہل عرب زمانہ جاہلیت میں بھی اس مہینے میں جنگ و جدال اور خونریزی سے رک جاتے تھے۔


---

قرآن و سنت میں محرم کی عظمت


قرآن مجید میں حرمت والے مہینے


اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے ہیں:

محرم

رجب المرجب

ذوالقعدہ

ذوالحجہ


رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں محرم


رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام کے ہیں۔

جو شخص محرم میں روزے رکھتا ہے، اسے ہر روزے کے بدلے تیس روزوں کا ثواب ملتا ہے۔

عاشورہ کے دن کا روزہ بے شمار برکتوں والا ہے۔



---

یوم عاشورہ کی فضیلت اور واقعات


عاشورہ کیا ہے؟


دس محرم کو "یوم عاشورہ" کہا جاتا ہے۔ یہ دن تاریخ اسلام اور انبیاء کرام کے کئی اہم واقعات سے جڑا ہوا ہے۔

انبیاء کرام کے واقعات یوم عاشورہ کے دن

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر رکی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے نجات ملی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل فرعون سے آزاد ہوئے۔

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے۔

حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے شفا ملی۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی۔

حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے۔



---

کربلا اور شہادتِ امام حسینؓ


یوم عاشورہ کو اسلام کی تاریخ میں عظیم قربانی سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت نے حق و سچ کے لیے قربانیاں دیں۔

کربلا کا میدان صبر، استقامت اور ایمان کی روشن مثال ہے۔



---

عاشورہ کے دن کے مستحب اعمال


روزہ رکھنا

صدقہ و خیرات کرنا

بیماروں کی عیادت کرنا

اہل خانہ پر خرچ میں وسعت کرنا

پیاسوں کو پانی پلانا



---

❓ FAQ (اکثر پوچھے جانے والے سوالات)


1. محرم الحرام میں کون سا عمل سب سے افضل ہے؟


محرم میں روزہ رکھنا سب سے افضل ہے، خاص طور پر یوم عاشورہ (10 محرم) کا روزہ۔

2. کیا محرم الحرام میں خوشی منانی چاہیے یا غم؟


یہ مہینہ احترام، عبادت اور صبر کا مہینہ ہے۔ یوم عاشورہ کو امام حسینؓ کی شہادت کو یاد کرتے ہوئے صبر اور دعا کی جاتی ہے۔

3. کیا یوم عاشورہ صرف امام حسینؓ کی شہادت سے جڑا ہے؟


نہیں، اس دن کئی انبیاء کرام کے عظیم واقعات پیش آئے۔ لیکن اسلامی تاریخ میں یہ دن کربلا کے واقعے کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔

4. کیا محرم میں صدقہ و خیرات کا کوئی خاص ثواب ہے؟


جی ہاں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو عاشورہ کے دن صدقہ کرے، اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرماتا ہے اور گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

5. کیا عاشورہ کے دن اپنے گھر والوں پر خرچ بڑھانا چاہیے؟


جی ہاں، حدیث میں ہے کہ جو عاشورہ کے دن اپنے گھر والوں پر خرچ میں وسعت کرے گا، اللہ تعالیٰ پورا سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائے گا۔

عید الاضحی

H1,عید الاضحی کا تعارف اور اہمیت ا


H2,اجرو ثواب 

H2,غریبوں اور مسکینوں کی مدد 


H3,عید الاضحی کی فضیلت 


H3,ایثار اور قربانی کا جذبہ


H3,‎خوشی اور مسرت


H2,اللہ تعالیٰ کی رضا 



 عید الاضحی کا تعارف اور اہمیت 

عید الاضحیٰ، جسے قربانی کے تہوار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، مسلمانوں کے لیے ایک اہم مذہبی تہوار ہے۔ یہ اسلامی کیلنڈر کے بارہویں مہینے، ذو الحجہ کے دسویں دن منایا جاتا ہے۔ عید الاضحیٰ حضرت ابراہیم کی خدا کے لیے اپنی محبت اور اطاعت کی یاد دلاتا ہے، جب انہوں نے خدا کے حکم پر اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کرنے کا ارادہ کیا۔

‎پس منظر 

‎عید الاضحیٰ منانے کا ایک اہم طریقہ قربانی کرنا ہے۔ مسلمان اس دن جانوروں، عام طور پر بھیڑ، بکری، گائے یا اونٹ کی قربانی کرتے ہیں۔ قربان کیے گئے جانور کا گوشت گھر والوں، دوستوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ عمل حضرت ابراہیم کی خدا کے لیے قربانی کی یاد دلاتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اشتراک اور دیکھ بھال کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

‎عید الاضحیٰ مسلمانوں کے لیے خوشی اور اجتماعات کا وقت ہے۔ لوگ عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد میں جمع ہوتے ہیں، تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں اور عزیزوں کے ساتھ دعوتیں مناتے ہیں۔ یہ خاندان اور برادری کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے اور غربا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا وقت ہے۔ عید الاضحیٰ ایک ایسا تہوار ہے جو ایمان، قربانی اور دوسروں کے ساتھ اشتراک کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے 

‎عیدالاضحی کی فضیلت 

‎عید الاضحی کی فضیلت بہت زیادہ ہے، یہ دن مسلمانوں کے لیے خوشی اور قربانی کا دن ہے۔ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا اور اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔

‎عید الاضحی کی چند فضیلتیں درج ذیل ہیں: 

‎قربانی کی فضیلت:

‎عید الاضحی کے دن قربانی کرنا سنت ابراہیمی ہے اور اس کی بہت فضیلت ہے۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھُروں سمیت آئے گا اور اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں قبول ہوتا ہے.

‎خوشی اور مسرت:

‎عید الاضحی مسلمانوں کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہے۔ اس دن لوگ نئے کپڑے پہنتے ہیں، عید کی نماز پڑھتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور خوشیاں بانٹتے ہیں۔

‎ایثار اور قربانی کا جذبہ:

‎عید الاضحی ہمیں ایثار اور قربانی کا جذبہ سکھاتی ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

‎غریبوں اور مسکینوں کی مدد:

‎عید الاضحی کے دن قربانی کا گوشت غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس سے ان کی خوشیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشرے میں ہمدردی اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

‎اجر و ثواب:

‎عید الاضحی کے دن کی جانے والی قربانی پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت اجر و ثواب ملتا ہے۔

‎اللہ کی رضا:

‎عید الاضحی کا دن اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا دن ہے۔ اس دن کی جانے والی قربانی اور دیگر عبادات سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں۔

‎مختصراً یہ کہ عید الاضحی ایک مقدس اور فضیلت والا دن ہے جو مسلمانوں کے لیے خوشی، مسرت، قربانی اور ایثار کا جذبہ لے کر آتا ہے۔۔

❓ عید الاضحی FAQ – سوالات اور جوابات


سوال 1: عید الاضحی کیا ہے اور کب منائی جاتی ہے؟


جواب: عید الاضحی کو قربانی کا تہوار کہا جاتا ہے۔ یہ ذوالحجہ کے دسویں دن منائی جاتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی یاد دلاتی ہے جب انہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کیا۔



---


سوال 2: عید الاضحی کی قربانی کیوں کی جاتی ہے؟


جواب: قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا، ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنا اور ضرورت مندوں کے ساتھ خوشیاں بانٹنا ہے۔



---


سوال 3: قربانی کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ کیا ہے؟


جواب: قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:

1️⃣ ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے۔

2️⃣ دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے۔

3️⃣ تیسرا حصہ غرباء و مساکین کے لیے۔



---


سوال 4: عید الاضحی کے دن کی کیا فضیلت ہے؟


جواب: یہ دن خوشی، مسرت، قربانی اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا دن ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے ہاں قبول کر لیا جاتا ہے اور ہر بال کے بدلے نیکی لکھی جاتی ہے۔



---


سوال 5: عید الاضحی پر کون سی عبادات افضل ہیں؟


جواب:

✅ عید کی نماز ادا کرنا

✅ جانور کی قربانی کرنا

✅ اللہ کا ذکر و شکر ادا کرنا

✅ غرباء و مساکین کی مدد کرنا



---


سوال 6: کیا عید الاضحی صرف قربانی تک محدود ہے؟


جواب: نہیں، عید الاضحی صرف قربانی تک محدود نہیں بلکہ یہ ایثار، صلہ رحمی، غرباء کی مدد اور خوشیاں بانٹنے کا بھی دن ہے۔

عید الفطر

 

عید الفطر کا تعارف اور اہمیت 

عید الفطر کا پس منظر

فقہی اختلافات

عید کی نماز کی خصوصیات

عید الفطر کے بعد کی خوشیاں





عید الفطر کا تعارف اور اہمیت


عید الفطر اسلام کے دو بڑے اور اہم تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے اور اسے رمضان المبارک کے اختتام پر خوشی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن روزہ داروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام اور خوشی کا پیغام ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان اس دن کو نہایت جوش و خروش سے مناتے ہیں اور مختلف طریقوں سے خوشیاں بانٹتے ہیں۔



---


عید الفطر کی نماز


عید کی نماز کی خصوصیات


عید الفطر کی نماز دو رکعتوں پر مشتمل ہوتی ہے جو صرف جماعت کے ساتھ ادا کی جا سکتی ہے۔ یہ نماز عام طور پر کھلے میدانوں یا بڑے اجتماعات میں پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز میں چھ اضافی تکبیریں شامل کی جاتی ہیں جو عام نماز سے مختلف ہیں۔


فقہی اختلافات


حنفی مکتب فکر: پہلی رکعت کے آغاز میں تین تکبیریں اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین تکبیریں۔


دیگر سنی مکاتب: عام طور پر 12 تکبیریں، جو سات اور پانچ کے گروپوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔


شیعہ اسلام: پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے چھ تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں۔




---


عید الفطر کے بعد کی خوشیاں


عید الفطر کی خاص پہچان خوشیاں اور میل جول ہیں۔ لوگ نماز کے بعد گلے ملتے ہیں، میٹھے پکوان تقسیم کرتے ہیں اور مختلف کھانوں سے ضیافت کرتے ہیں۔ اسی لیے اس تہوار کو "میٹھی عید" یا "شوگر فیسٹول" بھی کہا جاتا ہے۔



---


عید الفطر کا پس منظر


ایک حدیث کے مطابق جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ دو دن خوشی منانے کے لیے مخصوص رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں مسلمانوں کو دو بڑے دن عطا کیے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ اس طرح عید الفطر مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بڑی خوشی اور شکر گزاری کا دن ہے۔



---


عید الفطر کے حوالے سے سوالات (FAQ)


سوال 1: عید الفطر کب منائی جاتی ہے؟


جواب: عید الفطر شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے، جو رمضان المبارک کے اختتام کے فوراً بعد آتی ہے۔


سوال 2: عید الفطر کی نماز کیسے پڑھی جاتی ہے؟


جواب: یہ نماز دو رکعت جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور اس میں اضافی تکبیریں شامل ہوتی ہیں۔ ان تکبیروں کی تعداد فقہی مسلک کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔


سوال 3: عید الفطر کو "میٹھی عید" کیوں کہا جاتا ہے؟


جواب: عید الفطر پر لوگ خاص طور پر میٹھے پکوان بناتے ہیں اور ایک دوسرے میں تقسیم کرتے ہیں، اسی وجہ سے اسے "میٹھی عید" کہا جاتا ہے۔


سوال 4: عید الفطر کا پس منظر کیا ہے؟


جواب: یہ عید رسول اللہ ﷺ کی ہجرت مدینہ کے بعد مقرر کی گئی جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے دو بڑے دن، عید الفطر اور عید الاضحی، عطا فرمائے۔


سوال 5: عید الفطر کی اہمیت کیا ہے؟


جواب: عید الفطر شکر گزاری، خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا دن ہے۔ یہ روزہ داروں کے لیے اللہ کا انعام ہے او

ر مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے اور محبت کو بڑھاتا ہے۔



---

درود شریف کی فضیلت



درود شریف کی فضیلت اور برکات جانیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں درود شریف پڑھنے کے فوائد، اجر و ثواب اور اس کی اہمیت پر جامع بلاگ۔




 

1. درود شریف کی فضیلت اور برکات – قرآن و حدیث کی روشنی میں



2. درود شریف پڑھنے کے فوائد اور اجر و ثواب



3. درود شریف کی اہمیت: روحانی سکون اور مغفرت کا ذریعہ



4. درود شریف کے انعامات اور برکتیں – ایک جامع رہنمائی



5. درود شریف کا مقام و مرتبہ اور پڑھنے کے فضائل


درود شریف کی فضیلت اور برکات


قرآن میں درود شریف کا ذکر


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰة بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر صلوٰة اور خوب سلام بھیجو۔"
(سورة الاحزاب: 56)

یہ آیت مبارکہ ہمیں واضح طور پر یہ تعلیم دیتی ہے کہ درود شریف پڑھنا صرف عبادت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔


---

درود شریف کی اہمیت احادیث کی روشنی میں


اللہ کی رحمت کا نزول


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے، اللہ رب العالمین اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔"
(مسلم، نسائی، ترمذی)


---

دعا کی قبولیت اور غموں کا علاج


حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اپنی دعا میں کتنا وقت درود شریف کے لیے وقف کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
"جتنا چاہو، لیکن اگر اپنی ساری دعا درود شریف کے لیے وقف کر دو تو یہ تمہارے سارے غموں کے لیے کافی ہوگا اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنے گا۔"
(ترمذی)


---

جبریلؑ کی بد دعا اور درود شریف


حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ہلاکت ہو اس شخص کے لیے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے۔"
(حاکم)

یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ درود شریف نہ پڑھنا محرومی اور خسارے کا سبب ہے۔


---

درود شریف کے فوائد اور برکات


اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول

گناہوں کی بخشش

غموں اور پریشانیوں سے نجات

دعا کی قبولیت میں آسانی

رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا ذریعہ

دنیا اور آخرت میں کامیابی



---

❓FAQ — عام سوالات و جوابات


سوال 1: درود شریف پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟


جواب: سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔


---

سوال 2: کیا درود شریف کے لیے مخصوص وقت مقرر ہے؟


جواب: درود شریف کے لیے کوئی وقت مخصوص نہیں۔ دن اور رات کے کسی بھی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، خاص طور پر نمازوں کے بعد، دعا کرتے وقت اور جمعہ کے دن۔


---

سوال 3: درود شریف پڑھنے کی کم سے کم مقدار کیا ہونی چاہیے؟


جواب: کم سے کم دن میں ایک مرتبہ پڑھنا چاہیے، لیکن کثرت سے پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ زیادہ برکات حاصل ہوں۔


---


سوال 4: کیا درود شریف دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے؟


جواب: جی ہاں، علما کے مطابق دعا کی ابتدا اور انتہا درود شریف سے کرنا دعا کی قبولیت کے لیے بہترین طریقہ ہے۔


---

سوال 5: درود شریف نہ پڑھنے کا کیا نقصان ہے؟


جواب: احادیث میں آیا ہے کہ جس کے سامنے نبی کریم ﷺ کا ذکر ہو اور وہ درود شریف نہ پڑھے، اس پر جبریلؑ کی بد دعا ہے اور وہ ہلاکت کا مستحق قرار پاتا ہے۔

 اہم نکات 


درود شریف کی فضیلت


درود شریف پڑھنے کے فوائد

درود شریف کے برکات

درود شریف کی اہمیت

درود شریف احادیث

درود شریف قرآن میں

اللّٰہ پر یقین

اس بلاگ میں ہم اللہ تعالیٰ پر یقین کرنے کا مطلب ایمان کے ثابت قدم رہنے مطلب جانے گے


اللہ پر ایمان


ایمان باللہ کا مطلب

توحید کی اہمیت

اللہ کی صفات

اللہ کی عبادت

ایمان کی بنیاد

اسلامی عقیدہ

اللہ کی رضا

آخرت کا یقین

ایمان اور توحید








 


اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مطلب اور اہمیت | توحید، صفاتِ الٰہی 



اور عبادت‎اسلام میں اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ہے اس کی مکمل وحدانیت کو تسلیم کرنا، اسے کائنات کا واحد خالق، قائم کرنے والا، اور منصف تسلیم کرنا، اور اس کی مرضی کے تابع ہونا۔ اس میں اس کی صفات پر یقین، اسے واحد حقیقی خدا تسلیم کرنا، اور ہر چیز پر اس کی حاکمیت کو قبول کرنا شامل ہے۔ یہ عقیدہ اسلامی عقیدے کی بنیاد بناتا ہے اور ایک مسلمان کے عالمی نظریہ کو تشکیل دیتا ہے، ان کے اعمال کی رہنمائی کرتا ہے اور زندگی کا مقصد فراہم کرتا ہے

‎۔ توحید (خدا کی وحدانیت):

‎ اسلامی عقیدہ کا مرکز توحید، اللہ کی مطلق وحدانیت اور انفرادیت کا تصور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ایک ہی خدا ہے، اور اس کا کوئی شریک، ہمسر یا شریک نہیں ہے۔ 

‎اللہ کی صفات: 

‎مسلمان اللہ کی مختلف صفات پر یقین رکھتے ہیں، جیسے اس کی قدرت، علم، رحمت اور انصاف۔ یہ صفات کامل اور مطلق سمجھی جاتی ہیں، جو صرف اور صرف اللہ کی ہیں۔ اللہ کی ربوبیت: اللہ پر یقین میں اس کی مطلق ربوبیت کو تسلیم کرنا، اسے کائنات کا خالق، قائم کرنے والا، اور حاکم تسلیم کرنا بھی شامل ہے

‎۔ اللہ کی عبادت: 

‎مسلمان صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اپنی دعاؤں، دعاؤں اور عبادتوں کو صرف اسی کے لیے وقف کرتے ہیں۔

‎ رہنمائی اور مقصد:

‎ اللہ پر یقین زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، وجود کو معنی اور مقصد پیش کرتا ہے۔ احتساب: مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوں گے، جس سے صالح زندگی گزارنے کی اہمیت کو تقویت ملتی ہے۔

‎ اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرنا جی

‎: اسلام اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، اس کے احکام کو قبول کرنے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔


FAQ – سوالات اور جوابات


سوال 1: اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟

جواب: اللہ کو واحد خالق، مالک اور معبود ماننا، اس کی صفات پر یقین رکھنا اور زندگی اسی کے احکام کے مطابق گزارنا۔


سوال 2: توحید کیوں اہم ہے؟

جواب: توحید اسلام کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔


سوال 3: اللہ کی صفات پر ایمان لانے سے کیا فائدہ ہے؟

جواب: یہ ایمان انسان کے دل میں خوفِ خدا، محبتِ الٰہی اور زندگی میں عدل و انصاف پیدا کرتا ہے۔


سوال 4: اللہ پر ایمان رکھنے والا مسلمان کیسے زندگی گزارتا ہے؟

جواب: وہ صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے، برائی سے بچتا ہے، نیکی کرتا ہے اور آخرت کی تیاری کرتا ہے۔



---


دعا


"اے اللہ! ہمیں اپنا سچا مومن بنا، توحید پر قائم رکھ، اپنے احکام کی پیروی کی توفیق عطا فرما، اور قیامت کے دن اپنے مقرب بندوں می

ں شامل فرما۔ آمین۔"


جہاد کرنا

  


 ‎وضاحت 



"جہاد کا مطلب صرف جنگ نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جدوجہد اور کوشش ہے۔ اسلام میں جہاد کی اقسام، جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی وضاحت، اور جہاد کے بارے میں عام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مکمل بلاگ پڑھیں۔"


---

جہاد کا مطلب


جہاد کیا ہے


جہاد اسلام میں


جہاد کی اقسام


جہاد اکبر اور اصغر


جہاد کا اصل تصور


جہاد کے بارے میں غلط فہمیاں


جہاد قرآن و حدیث کے مطابق


اسلام میں جہاد کی وضاحت


جہاد اور اسلام




جہاد کا حقیقی تصور | اسلام میں جدوجہد کی اہمیت


جہاد کا تعارف


اسلام میں جہاد کا مطلب عام طور پر اللہ کی راہ میں کوشش اور جدوجہد ہے۔ یہ صرف جنگ یا قتال تک محدود نہیں بلکہ اس میں زندگی کے مختلف پہلو شامل ہیں، جیسے اپنے نفس پر قابو پانا، برائی کے خلاف کھڑا ہونا، اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا۔


---

جہاد کی اقسام


1. اندرونی جہاد (جہادِ اکبر)


یہ سب سے بڑی جدوجہد ہے، جس میں انسان اپنی خواہشات، گناہوں اور فتنوں کے خلاف لڑتا ہے۔ اس کا مقصد تقویٰ اور صالح زندگی اختیار کرنا ہے۔

2. بیرونی جہاد (جہادِ اصغر)


یہ جہاد کئی صورتوں میں ہو سکتا ہے:

زبانی و تحریری جہاد: اسلام کا دفاع الفاظ، قلم یا تقریر کے ذریعے کرنا۔

سماجی و سیاسی جہاد: ایک منصف اور عادلانہ معاشرے کی تعمیر کے لیے جدوجہد۔


دفاعی جہاد: اگر مسلمانوں پر حملہ ہو تو ان کا دفاع کرنا۔ یہ صرف مخصوص حالات میں جائز ہے اور اس کے سخت شرائط ہیں۔



---

جہاد کے بارے میں غلط فہمیاں


جہاد کو اکثر صرف "مقدس جنگ" کہا جاتا ہے جو درست نہیں۔

اسلام میں جہاد کا مقصد صرف تشدد نہیں بلکہ انصاف، اصلاح اور اللہ کی رضا ہے۔

اصل جہاد انسان کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔



---

جہاد اور سیاق و سباق کی اہمیت


جہاد کی درست تشریح اس کے سیاق و سباق پر منحصر ہے۔

یہ روحانی و اخلاقی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔

یہ برائی کو روکنے اور اچھائی کو فروغ دینے کی اجتماعی جدوجہد بھی ہے۔



---

نتیجہ


جہاد اسلام کا ایک وسیع تصور ہے جو صرف جنگ تک محدود نہیں۔ یہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی ذات اور معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔


---

❓ FAQ (اکثر پوچھے جانے والے سوالات)


جہاد کا اصل مطلب کیا ہے؟


جہاد کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں کوشش اور جدوجہد کرنا، خواہ وہ اپنی ذات کے خلاف ہو یا معاشرے میں برائی کے خلاف۔

کیا جہاد صرف جنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے؟


نہیں، جہاد کا مطلب صرف جنگ نہیں۔ یہ ایک وسیع تصور ہے جس میں روحانی، سماجی، اور معاشرتی جدوجہد شامل ہے۔

جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر میں کیا فرق ہے؟


جہادِ اکبر: نفس اور گناہوں کے خلاف جدوجہد۔

جہادِ اصغر: دشمن کے خلاف دفاعی جنگ یا دیگر عملی کوششیں۔


کیا جہاد ہمیشہ ہتھیار اٹھانے کو کہتے ہیں؟


نہیں، جہاد میں سب سے بڑا حصہ اخلاقی و روحانی جدوجہد کا ہے۔ مسلح جہاد صرف مخصوص حالات میں جائز ہے۔


جمعرات، 3 جولائی، 2025

جنگ خندق کا واقعہ



غزوہ خندق یا جنگ احزاب 5 ہجری میں مدینہ کے قریب لڑی گئی، جب قریش اور دیگر قبائل نے مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت سلمان فارسی کے مشورے پر خندق کھودی گئی جس نے دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ مکمل تفصیل، پس منظر اور نتائج جانیں۔


---




وضاحت 

 ‎شوال۔ ذی القعدہ 5

‎ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔

‎جنگ احد کے بعد قریش، یہودی اور عرب کے دیگر بت پرست قبائل کے درمیان میں طے پایا کہ مل جل کر اسلام کو ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلا معاہدہ قریش کے سردار ابوسفیان اور مدینہ سے نکالے جانے والے یہودی قبیلہ بنی نضیر کے درمیان میں ہوا۔ اس کے بعد بنی نضیر کے نمائندے نجد روانہ ہوئے اور وہاں کے مشرک قبائل 'غطفان' اور 'بنی سلیم' کو ایک سال تک خیبر کا محصول دے کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔[5] اسلام کے خلاف اس اتحاد کو قرآن نے احزاب کا نام دیا ہے۔ ان میں ابوسفیان کی قیادت میں 4000 پیدل فوجی، 300 گھڑ سوار اور 1500 کے قریب شتر سوار (اونٹوں پر سوار) شامل تھے۔ دوسری بڑی طاقت قبیلہ غطفان کی تھی جس کے 1000 سوار انینہ کی قیادت میں تھے۔ اس کے علاوہ بنی مرہ کے 400، بنی شجاع کے 700 اور کچھ دیگر قبائل کے افراد شامل تھے۔ مجموعی طور پر تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی جو اس زمانے میں اس علاقے کے لحاظ سے ایک انتہائی بڑی فوجی طاقت تھی۔ یہ فوج تیار ہو کر ابو سفیان کی قیادت میں فروری یا مارچ 627ء میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے مدینہ روانہ ہو گئی۔[6][7]

‎حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سازش کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب سے مشورہ کیا۔ سلمان فارسی نے ایک دفاعی خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو عربوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ مشورہ پسند آیا چنانچہ خندق کی تعمیر شروع ہو گئی۔ مدینہ کے اردگرد پہاڑ تھے اور گھر ایک دوسرے سے متصل تھے جو ایک قدرتی دفاعی فصیل کا کام کرتے تھے۔ ایک جگہ کوہِ عبیدہ اور کوہ راتج کے درمیان میں سے حملہ ہو سکتا تھا اس لیے وہاں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی کھدائی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت سب لوگ شریک ہوئے۔ اس دوران میں سلمان فارسی نہایت جوش و خروش سے کام کرتے رہے اور اس وجہ سے انصار کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں اور مہاجرین کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ 'سلمان میرے اہلِ بیت سے ہیں'۔ کھدائی کے دوران میں سلمان فارسی کے سامنے ایک بڑا سفید پتھر آ گیا جو ان سے اور دوسرے ساتھیوں سے نہ ٹوٹا۔ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود تشریف لائے اور کلہاڑی کی ضرب لگائی۔ ایک بجلی سی چمکی اور پتھر کا ایک ٹکرا ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تکبیر بلند کی۔ دوسری اور تیسری ضرب پر بھی ایسا ہی ہوا۔ سلمان فارسی نے سوال کیا کہ ہر دفعہ بجلی سی چمکنے کے بعد آپ تکبیر کیوں بلند کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ جب پہلی دفعہ بجلی چمکی تو میں نے یمن اور صنعاء کے محلوں کو کھلتے دیکھا۔ دوسری مرتبہ بجلی چمکنے پر میں نے شام و مغرب کے کاخہائے سرخ کو فتح ہوتے دیکھا اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخہائے کسریٰ میری امت کے ہاتھوں مسخر ہو جائیں گے'۔۔[8] بیس دن میں خندق مکمل ہو گئی۔ جو تقریباً پانچ کلومیٹر لمبی تھی، پانچ ہاتھ (تقریباً سوا دو سے ڈھائی میٹر) گہری تھی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار جست لگا کر بھی پار نہ کر سکتا تھا۔[9] مسلمانوں کی تعداد 3000 کے قریب تھی جو پندرہ سال سے بڑے تھے اور جنگ میں حصہ لے سکتے تھے۔[6]

ترتیب



غزوہ خندق (جنگ احزاب) – اسلام کی عظیم دفاعی حکمت عملی


تعارف


غزوہ خندق یا جنگِ احزاب اسلام کی اہم ترین جنگوں میں سے ایک ہے، جو سنہ 5 ہجری (مارچ 627ء) میں مدینہ منورہ کے قریب لڑی گئی۔ اس جنگ میں مشرکین مکہ نے قریش، یہودیوں اور دیگر قبائل کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن مسلمانوں نے حکمتِ عملی اور ایمان کی قوت سے دشمن کے بڑے اتحاد کو شکست دی۔


---

پس منظر – جنگ کی تیاری


جنگ احد کے بعد قریش، یہودی اور دیگر مشرک قبائل نے طے کیا کہ اسلام کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑا اتحاد بنایا جائے۔

قریش کے سردار ابوسفیان نے بنی نضیر کے یہودی قبیلے اور دیگر قبائل جیسے غطفان، بنی سلیم وغیرہ سے معاہدے کیے۔

کل فوجی طاقت تقریباً 10,000 کے قریب تھی جو اس وقت کے حساب سے ایک بڑی لشکر کشی تھی۔



---

مسلمانوں کی حکمتِ عملی – خندق کی کھدائی


مسلمانوں کی تعداد صرف 3,000 تھی۔

حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے پر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی، جو عرب میں پہلی مرتبہ کیا گیا دفاعی طریقہ تھا۔

خندق تقریباً 5 کلومیٹر لمبی، ڈھائی میٹر گہری اور اتنی چوڑی تھی کہ گھوڑا جست لگا کر بھی پار نہ کر سکتا تھا۔

اس دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خندق کھودنے میں شریک رہے۔



---

حضرت سلمان فارسیؓ کا کردار


سلمان فارسیؓ نے خندق کھدوانے کی تجویز دی۔

خندق کی کھدائی کے دوران ایک بڑا پتھر آیا جو صحابہ سے نہ ٹوٹا۔

رسول اللہ ﷺ نے تین بار اس پر ضرب لگائی اور ہر بار روشنی چمکی۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے پہلی ضرب پر یمن کے محلات، دوسری پر شام و مغرب کے قلعے، اور تیسری پر ایران کے محلات اپنی امت کے ہاتھوں فتح ہوتے دیکھے۔



---

نتیجہ – دشمن کی پسپائی


قریش اور اتحادی قبائل نے تقریباً ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ کیا لیکن خندق کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔

مسلسل ناکامی اور نقصان کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔

اس جنگ کو غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا گیا کیونکہ یہ مختلف قبائل کا اتحاد تھا۔



---

قرآن میں ذکر


اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کا ذکر سورۃ الاحزاب میں کیا ہے، جہاں مسلمانوں کی ثابت قدمی اور اللہ کی نصرت کو بیان کیا گیا ہے۔


---

✨ FAQ – عام سوالات و جوابات


❓ غزوہ خندق کب لڑی گئی؟


غزوہ خندق 5 ہجری (مارچ 627ء) میں مدینہ کے قریب لڑی گئی۔

❓ اس جنگ کو جنگ احزاب کیوں کہا جاتا ہے؟


کیونکہ مختلف قبائل اور گروہوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کیا تھا، اس لیے اس جنگ کو "احزاب" (یعنی گروہوں) کی جنگ کہا جاتا ہے۔

❓ خندق کھودنے کا مشورہ کس نے دیا؟


حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو ایرانی جنگی حکمت عملی تھی۔

❓ مشرکین کی فوج کتنی تھی؟


تقریباً 10,000 کے قریب فوجی، جن میں قریش، یہودی اور دوسرے قبائل شامل تھے۔

❓ مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی؟


مسلمانوں کی تعداد صرف 3,000 تھی۔

❓ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟


اللہ کی مدد اور مسلمانوں کی حکمتِ عملی کی بدولت مشرکین ناکام و نامراد واپس لوٹ گئے۔

اہم مضامین 


غزوہ خندق

جنگ احزاب

خندق کی جنگ

حضرت سلمان فارسی کا کردار

جنگ خندق کا پس منظر

مدینہ کا محاصرہ

جنگ احزاب قرآن میں

غزوہ خندق 5 ہجری

غزوہ خندق کی تفصیل

جنگ خندق اسلامی تاریخ

جنگ خیبر کا واقعہ part 2


 ‎

حصہ دوم


غزوہ خیبر 



حضرت علیؓ کے ہاتھوں مرحب کی ہلاکت اور خیبر کی فتح


---

ابتدائی صورتحال


یہودی قبائل نے اپنی عورتوں اور بچوں کو ایک قلعے میں جبکہ مال و اسباب کو دوسرے قلعے میں جمع کیا اور تیر انداز مقرر کر دیے۔ مسلمانوں نے ایک کے بعد ایک پانچ قلعے فتح کر لیے۔ ان جھڑپوں میں پچاس مجاہد زخمی ہوئے اور ایک شہید ہوئے۔


---

قلعہ قموص کی اہمیت


قلعہ قموص سب سے مضبوط اور مرکزی قلعہ تھا جو پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔

مسلمانوں نے باری باری حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں افواج بھیجیں مگر کامیابی نہ ملی۔



---

حضرت علیؓ کو علم دینا


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ کبھی شکست نہ کھائے گا۔"

اگلے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلایا گیا، جنہیں آشوب چشم تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی بینائی فوراً درست ہوگئی۔


---

مرحب کے ساتھ مقابلہ


مرحب کا بھائی سب سے پہلے مقابلے میں آیا مگر حضرت علیؓ نے اسے قتل کر دیا۔

اس کے بعد مرحب خود رجز پڑھتا ہوا آیا۔

حضرت علیؓ نے ایک ہی وار میں اس کا سر اور خود (ہیلمٹ) دو ٹکڑے کر دیے۔

مرحب کی موت کے بعد یہودی خوفزدہ ہو گئے اور قلعے میں چھپ گئے۔



---

قلعے کا دروازہ


حضرت علیؓ نے قلعے کا بھاری دروازہ اکھاڑ کر خندق پر ڈال دیا، جسے عموماً بیس آدمی مل کر کھولتے تھے۔ اس کے بعد مسلمان گھڑسواروں سمیت اندر داخل ہو گئے اور قلعہ فتح ہوگیا۔


---

معاہدہ خیبر


مسلمانوں کو شاندار فتح ملی۔

یہودیوں کو ان کی درخواست پر خیبر میں رہنے کی اجازت دی گئی۔

شرط یہ رکھی گئی کہ وہ اپنی آمدنی کا نصف بطور جزیہ مسلمانوں کو دیں گے۔

مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ جب چاہیں، یہودیوں کو خیبر سے نکال سکتے ہیں۔



---

حضرت صفیہؓ کا نکاح


جنگ میں بنی نضیر کے سردار حُیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ قید ہوئیں۔

رسول اللہ ﷺ نے انہیں آزاد کر کے نکاح کر لیا۔



---

📌 FAQ – سوالات اور جوابات


سوال 1: قلعہ قموص کیوں سب سے اہم تھا؟

جواب: یہ خیبر کا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا جو پہاڑی پر تعمیر تھا اور اس کی حفاظت کے لیے بہترین تیر انداز تعینات تھے۔

سوال 2: مرحب کو کس نے قتل کیا؟

جواب: مرحب کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک ہی وار میں قتل کیا۔

سوال 3: حضرت علیؓ کی آنکھوں کا آشوب چشم کیسے ٹھیک ہوا؟

جواب: رسول اللہ ﷺ نے اپنے لعاب دہن سے ان کی آنکھوں پر مسح کیا، جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے تندرست ہوگئیں۔

سوال 4: یہودیوں کے ساتھ کیا معاہدہ ہوا؟

جواب: انہیں خیبر میں رہنے کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ اپنی آمدنی کا نصف جزیہ کے طور پر مسلمانوں کو دیں۔

سوال 5: حضرت صفیہؓ کا کیا مقام ہوا؟

جواب: حضرت صفیہؓ کو آزاد کر کے رسول اللہ ﷺ نے نکاح فرمایا اور وہ امہات المؤمنین میں شامل ہو گئیں۔


---

غزوہ خیبر حصہ دوم کے اہم مضامین 


حضرت علی اور مرحب

خیبر کا قلعہ قموص

حضرت صفیہ کا نکاح

معاہدہ خیبر

یہودی قبائل خیبر

اسلام کی فتوحات

جزیہ کا نظام

حضرت علی کا کارنامہ

رسول اللہ ﷺ کی فتح



جنگ خیبر کب کیسے وقوع پذیر ہوئی

 

حصہ اول 



جنگ خیبر کے واقعے کی تفصیل 

 ‎


---

غزوہ خیبر (628 عیسوی) – مسلمانوں کی عظیم فتح



---

تعارف


غزوہ خیبر (عربی: غَزْوَة خَيْبَر) اسلامی تاریخ کی ایک اہم جنگ تھی جو 628 عیسوی میں مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں واقع علاقے خیبر میں ہوئی۔ یہ جنگ مسلمانوں اور یہودی قبائل کے درمیان لڑی گئی، جس نے اسلامی فوجی طاقت کو نئی تقویت بخشی۔


---

خیبر کا مقام اور پس منظر


خیبر مدینہ منورہ سے تقریباً 150 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا۔

یہ علاقہ یہودی قبائل کی بڑی برادری کا مرکز تھا۔

یہاں مضبوط قلعے اور زراعت کی زمینیں موجود تھیں، جس کی وجہ سے یہ ایک اہم معاشی اور عسکری طاقت تھا۔



---

جنگ کی ابتدا


جب رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں کی فوج خیبر کی طرف روانہ ہوئی تو:

بنو غطفان اور دیگر یہودی حلیف قبائل مسلمانوں کے خلاف کوئی مدد نہ کر سکے۔

قلعہ بند یہودی افواج کمزور ہو گئیں۔

مختصر جھڑپوں کے بعد مسلمانوں نے خیبر کو فتح کر لیا۔



---

مرحب بن الحارث کی ہلاکت


یہودی فوج کے کمانڈر مرحب بن الحارث کو حضرت علی بن ابی طالبؓ نے جنگ میں قتل کیا۔ یہ واقعہ خیبر کی جنگ کا ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔


---

معاہدے اور شرائط


مسلمانوں کی فتح کے بعد خیبر کے لیے یہ شرائط طے ہوئیں:

یہودی قبائل کی دولت مسلمانوں کے قبضے میں آئی۔

ہر غیر مسلم پر جزیہ عائد کیا گیا، بدلے میں انہیں جنگی تحفظ فراہم کیا گیا۔

یہودیوں کو ہجرت کرنے یا خیبر میں رہنے کا اختیار دیا گیا۔

مسلمانوں نے مقامی قبائل کے خلاف مزید مہم روکنے پر اتفاق کیا۔



---

جانی نقصان


مسلمانوں کی تعداد: تقریباً 1400

یہودیوں کی تعداد: 10,000 سے 20,000

اموات:

93 یہودی

18 مسلمان


زخمی: تقریباً 50 دونوں جانب



---

جدید دور میں خیبر کا حوالہ


20ویں صدی کے آخر سے، غزوہ خیبر کا حوالہ عرب دنیا میں ایک نعرے "خیبر، خیبر یا یہود" کی صورت میں دیا جاتا ہے، جو عرب-اسرائیل تنازعے کے تناظر میں استعمال ہوتا ہے۔


---

❓ FAQs – عام سوالات


سوال 1: غزوہ خیبر کب ہوا؟

جواب: یہ جنگ 628 عیسوی (7 ہجری) میں لڑی گئی۔

سوال 2: خیبر کہاں واقع ہے؟

جواب: مدینہ منورہ سے تقریباً 150 کلومیٹر شمال مغرب میں۔

سوال 3: مرحب بن الحارث کو کس نے قتل کیا؟

جواب: حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے۔

سوال 4: مسلمانوں اور یہودیوں کی تعداد کتنی تھی؟

جواب: 1400 مسلمان اور تقریباً 10 سے 20 ہزار یہودی۔

سوال 5: اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟

جواب: خیبر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور جزیہ کا نظام نافذ ہوا۔

اہم مضامین 


غزوہ خیبر


خیبر کی جنگ

خیبر 628 عیسوی

مرحب بن الحارث

حضرت علی اور خیبر

یہودی قبائل خیبر

اسلام کی فتوحات

مسلمانوں کی فوجی طاقت

جزیہ کا نظام اسلام

ابتدائی اسلامی جنگیں

امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...