وضاحت
ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
جنگ احد کے بعد قریش، یہودی اور عرب کے دیگر بت پرست قبائل کے درمیان میں طے پایا کہ مل جل کر اسلام کو ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلا معاہدہ قریش کے سردار ابوسفیان اور مدینہ سے نکالے جانے والے یہودی قبیلہ بنی نضیر کے درمیان میں ہوا۔ اس کے بعد بنی نضیر کے نمائندے نجد روانہ ہوئے اور وہاں کے مشرک قبائل 'غطفان' اور 'بنی سلیم' کو ایک سال تک خیبر کا محصول دے کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔[5] اسلام کے خلاف اس اتحاد کو قرآن نے احزاب کا نام دیا ہے۔ ان میں ابوسفیان کی قیادت میں 4000 پیدل فوجی، 300 گھڑ سوار اور 1500 کے قریب شتر سوار (اونٹوں پر سوار) شامل تھے۔ دوسری بڑی طاقت قبیلہ غطفان کی تھی جس کے 1000 سوار انینہ کی قیادت میں تھے۔ اس کے علاوہ بنی مرہ کے 400، بنی شجاع کے 700 اور کچھ دیگر قبائل کے افراد شامل تھے۔ مجموعی طور پر تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی جو اس زمانے میں اس علاقے کے لحاظ سے ایک انتہائی بڑی فوجی طاقت تھی۔ یہ فوج تیار ہو کر ابو سفیان کی قیادت میں فروری یا مارچ 627ء میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے مدینہ روانہ ہو گئی۔[6][7]
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سازش کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب سے مشورہ کیا۔ سلمان فارسی نے ایک دفاعی خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو عربوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ مشورہ پسند آیا چنانچہ خندق کی تعمیر شروع ہو گئی۔ مدینہ کے اردگرد پہاڑ تھے اور گھر ایک دوسرے سے متصل تھے جو ایک قدرتی دفاعی فصیل کا کام کرتے تھے۔ ایک جگہ کوہِ عبیدہ اور کوہ راتج کے درمیان میں سے حملہ ہو سکتا تھا اس لیے وہاں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی کھدائی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت سب لوگ شریک ہوئے۔ اس دوران میں سلمان فارسی نہایت جوش و خروش سے کام کرتے رہے اور اس وجہ سے انصار کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں اور مہاجرین کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ 'سلمان میرے اہلِ بیت سے ہیں'۔ کھدائی کے دوران میں سلمان فارسی کے سامنے ایک بڑا سفید پتھر آ گیا جو ان سے اور دوسرے ساتھیوں سے نہ ٹوٹا۔ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود تشریف لائے اور کلہاڑی کی ضرب لگائی۔ ایک بجلی سی چمکی اور پتھر کا ایک ٹکرا ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تکبیر بلند کی۔ دوسری اور تیسری ضرب پر بھی ایسا ہی ہوا۔ سلمان فارسی نے سوال کیا کہ ہر دفعہ بجلی سی چمکنے کے بعد آپ تکبیر کیوں بلند کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ جب پہلی دفعہ بجلی چمکی تو میں نے یمن اور صنعاء کے محلوں کو کھلتے دیکھا۔ دوسری مرتبہ بجلی چمکنے پر میں نے شام و مغرب کے کاخہائے سرخ کو فتح ہوتے دیکھا اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخہائے کسریٰ میری امت کے ہاتھوں مسخر ہو جائیں گے'۔۔[8] بیس دن میں خندق مکمل ہو گئی۔ جو تقریباً پانچ کلومیٹر لمبی تھی، پانچ ہاتھ (تقریباً سوا دو سے ڈھائی میٹر) گہری تھی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار جست لگا کر بھی پار نہ کر سکتا تھا۔[9] مسلمانوں کی تعداد 3000 کے قریب تھی جو پندرہ سال سے بڑے تھے اور جنگ میں حصہ لے سکتے تھے۔[6]

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں