Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

جمعرات، 3 جولائی، 2025

جنگ خیبر کا واقعہ part 2


 ‎

حصہ دوم


غزوہ خیبر 



حضرت علیؓ کے ہاتھوں مرحب کی ہلاکت اور خیبر کی فتح


---

ابتدائی صورتحال


یہودی قبائل نے اپنی عورتوں اور بچوں کو ایک قلعے میں جبکہ مال و اسباب کو دوسرے قلعے میں جمع کیا اور تیر انداز مقرر کر دیے۔ مسلمانوں نے ایک کے بعد ایک پانچ قلعے فتح کر لیے۔ ان جھڑپوں میں پچاس مجاہد زخمی ہوئے اور ایک شہید ہوئے۔


---

قلعہ قموص کی اہمیت


قلعہ قموص سب سے مضبوط اور مرکزی قلعہ تھا جو پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔

مسلمانوں نے باری باری حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں افواج بھیجیں مگر کامیابی نہ ملی۔



---

حضرت علیؓ کو علم دینا


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ کبھی شکست نہ کھائے گا۔"

اگلے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلایا گیا، جنہیں آشوب چشم تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی بینائی فوراً درست ہوگئی۔


---

مرحب کے ساتھ مقابلہ


مرحب کا بھائی سب سے پہلے مقابلے میں آیا مگر حضرت علیؓ نے اسے قتل کر دیا۔

اس کے بعد مرحب خود رجز پڑھتا ہوا آیا۔

حضرت علیؓ نے ایک ہی وار میں اس کا سر اور خود (ہیلمٹ) دو ٹکڑے کر دیے۔

مرحب کی موت کے بعد یہودی خوفزدہ ہو گئے اور قلعے میں چھپ گئے۔



---

قلعے کا دروازہ


حضرت علیؓ نے قلعے کا بھاری دروازہ اکھاڑ کر خندق پر ڈال دیا، جسے عموماً بیس آدمی مل کر کھولتے تھے۔ اس کے بعد مسلمان گھڑسواروں سمیت اندر داخل ہو گئے اور قلعہ فتح ہوگیا۔


---

معاہدہ خیبر


مسلمانوں کو شاندار فتح ملی۔

یہودیوں کو ان کی درخواست پر خیبر میں رہنے کی اجازت دی گئی۔

شرط یہ رکھی گئی کہ وہ اپنی آمدنی کا نصف بطور جزیہ مسلمانوں کو دیں گے۔

مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ جب چاہیں، یہودیوں کو خیبر سے نکال سکتے ہیں۔



---

حضرت صفیہؓ کا نکاح


جنگ میں بنی نضیر کے سردار حُیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ قید ہوئیں۔

رسول اللہ ﷺ نے انہیں آزاد کر کے نکاح کر لیا۔



---

📌 FAQ – سوالات اور جوابات


سوال 1: قلعہ قموص کیوں سب سے اہم تھا؟

جواب: یہ خیبر کا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا جو پہاڑی پر تعمیر تھا اور اس کی حفاظت کے لیے بہترین تیر انداز تعینات تھے۔

سوال 2: مرحب کو کس نے قتل کیا؟

جواب: مرحب کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک ہی وار میں قتل کیا۔

سوال 3: حضرت علیؓ کی آنکھوں کا آشوب چشم کیسے ٹھیک ہوا؟

جواب: رسول اللہ ﷺ نے اپنے لعاب دہن سے ان کی آنکھوں پر مسح کیا، جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے تندرست ہوگئیں۔

سوال 4: یہودیوں کے ساتھ کیا معاہدہ ہوا؟

جواب: انہیں خیبر میں رہنے کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ اپنی آمدنی کا نصف جزیہ کے طور پر مسلمانوں کو دیں۔

سوال 5: حضرت صفیہؓ کا کیا مقام ہوا؟

جواب: حضرت صفیہؓ کو آزاد کر کے رسول اللہ ﷺ نے نکاح فرمایا اور وہ امہات المؤمنین میں شامل ہو گئیں۔


---

غزوہ خیبر حصہ دوم کے اہم مضامین 


حضرت علی اور مرحب

خیبر کا قلعہ قموص

حضرت صفیہ کا نکاح

معاہدہ خیبر

یہودی قبائل خیبر

اسلام کی فتوحات

جزیہ کا نظام

حضرت علی کا کارنامہ

رسول اللہ ﷺ کی فتح



جنگ خیبر کب کیسے وقوع پذیر ہوئی

 

حصہ اول 



جنگ خیبر کے واقعے کی تفصیل 

 ‎


---

غزوہ خیبر (628 عیسوی) – مسلمانوں کی عظیم فتح



---

تعارف


غزوہ خیبر (عربی: غَزْوَة خَيْبَر) اسلامی تاریخ کی ایک اہم جنگ تھی جو 628 عیسوی میں مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں واقع علاقے خیبر میں ہوئی۔ یہ جنگ مسلمانوں اور یہودی قبائل کے درمیان لڑی گئی، جس نے اسلامی فوجی طاقت کو نئی تقویت بخشی۔


---

خیبر کا مقام اور پس منظر


خیبر مدینہ منورہ سے تقریباً 150 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا۔

یہ علاقہ یہودی قبائل کی بڑی برادری کا مرکز تھا۔

یہاں مضبوط قلعے اور زراعت کی زمینیں موجود تھیں، جس کی وجہ سے یہ ایک اہم معاشی اور عسکری طاقت تھا۔



---

جنگ کی ابتدا


جب رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں کی فوج خیبر کی طرف روانہ ہوئی تو:

بنو غطفان اور دیگر یہودی حلیف قبائل مسلمانوں کے خلاف کوئی مدد نہ کر سکے۔

قلعہ بند یہودی افواج کمزور ہو گئیں۔

مختصر جھڑپوں کے بعد مسلمانوں نے خیبر کو فتح کر لیا۔



---

مرحب بن الحارث کی ہلاکت


یہودی فوج کے کمانڈر مرحب بن الحارث کو حضرت علی بن ابی طالبؓ نے جنگ میں قتل کیا۔ یہ واقعہ خیبر کی جنگ کا ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔


---

معاہدے اور شرائط


مسلمانوں کی فتح کے بعد خیبر کے لیے یہ شرائط طے ہوئیں:

یہودی قبائل کی دولت مسلمانوں کے قبضے میں آئی۔

ہر غیر مسلم پر جزیہ عائد کیا گیا، بدلے میں انہیں جنگی تحفظ فراہم کیا گیا۔

یہودیوں کو ہجرت کرنے یا خیبر میں رہنے کا اختیار دیا گیا۔

مسلمانوں نے مقامی قبائل کے خلاف مزید مہم روکنے پر اتفاق کیا۔



---

جانی نقصان


مسلمانوں کی تعداد: تقریباً 1400

یہودیوں کی تعداد: 10,000 سے 20,000

اموات:

93 یہودی

18 مسلمان


زخمی: تقریباً 50 دونوں جانب



---

جدید دور میں خیبر کا حوالہ


20ویں صدی کے آخر سے، غزوہ خیبر کا حوالہ عرب دنیا میں ایک نعرے "خیبر، خیبر یا یہود" کی صورت میں دیا جاتا ہے، جو عرب-اسرائیل تنازعے کے تناظر میں استعمال ہوتا ہے۔


---

❓ FAQs – عام سوالات


سوال 1: غزوہ خیبر کب ہوا؟

جواب: یہ جنگ 628 عیسوی (7 ہجری) میں لڑی گئی۔

سوال 2: خیبر کہاں واقع ہے؟

جواب: مدینہ منورہ سے تقریباً 150 کلومیٹر شمال مغرب میں۔

سوال 3: مرحب بن الحارث کو کس نے قتل کیا؟

جواب: حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے۔

سوال 4: مسلمانوں اور یہودیوں کی تعداد کتنی تھی؟

جواب: 1400 مسلمان اور تقریباً 10 سے 20 ہزار یہودی۔

سوال 5: اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟

جواب: خیبر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور جزیہ کا نظام نافذ ہوا۔

اہم مضامین 


غزوہ خیبر


خیبر کی جنگ

خیبر 628 عیسوی

مرحب بن الحارث

حضرت علی اور خیبر

یہودی قبائل خیبر

اسلام کی فتوحات

مسلمانوں کی فوجی طاقت

جزیہ کا نظام اسلام

ابتدائی اسلامی جنگیں

جنگ بدر کا واقعہ part 3


غزوہ بدر حصہ سوم،

 ابو جہل کا قتل،

 کم عمر مجاہدین، 


معاذ بن عمر، 

معاذ بن عفراء، 

معوذ، 

جنگ بدر کی فتح




غزوہ بدر حصہ سوم میں ابو جہل کے انجام اور مسلمانوں کی عظیم فتح کی داستان پڑھیں۔ جانیں کس طرح کم عمر مجاہدین نے بہادری دکھائی اور قریش کے بڑے سردار ہلاک ہوئے۔



 ‎

غزوہ بدر – حصہ سوم | ابو جہل کا انجام اور مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح


تعارف


غزوہ بدر کی اصل کامیابی صرف ایک فوجی فتح نہیں تھی، بلکہ یہ ایمان، قربانی اور اللہ کی نصرت کا زندہ ثبوت تھی۔ اس معرکے میں وہ منظر سب سے یادگار ہے جب دو کم عمر مجاہدین نے اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کو جہنم واصل کیا۔


---

کم عمر مجاہدین کی بہادری


جنگ بدر کے دوران دو کم عمر بچے معاذ بن عمر بن جموع اور معاذ بن عفراء حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے پاس آئے اور پوچھا:

"چچا! آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے۔ اللہ کی قسم! اگر ہم نے اسے دیکھا تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک اسے قتل نہ کر دیں یا ہم شہید نہ ہو جائیں۔"

اتفاق سے ابو جہل سامنے سے گزر رہا تھا۔ حضرت عبد الرحمنؓ نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ دونوں نوجوان شیر کی طرح جھپٹے، ایک نے اس کے گھوڑے پر وار کیا اور دوسرے نے اس کی ٹانگ کاٹ ڈالی۔

ابو جہل گھوڑے سمیت زمین پر گر گیا۔

عکرمہ بن ابو جہل نے معاذ بن عمر پر وار کیا جس سے ان کا بازو کٹ کر لٹک گیا۔

نوجوان نے بہادری دکھاتے ہوئے بازو کو اپنے قدموں تلے روند کر الگ کر دیا اور ایک ہی ہاتھ سے لڑتے رہے۔

اتنے میں معوذ بن عفراء بھی پہنچ گئے اور تینوں نے ابو جہل کو زخمی کر ڈالا۔


آخرکار، عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کے سینے پر بیٹھ کر اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
یوں اللہ کے دشمن کا خاتمہ ہو گیا۔


---

قریش کے سرداروں کی ہلاکت


ابو جہل کے ساتھ کئی بڑے سرداران قریش بھی مارے گئے، جن میں شامل تھے:

امیہ بن خلف (حضرت بلال پر ظلم کرنے والا)

ابو بختری

دیگر اہم رہنما جنہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کیں۔



---

مسلمانوں کی قربانی اور قریش کی شکست


مسلمانوں کے 14 صحابہ کرام شہید ہوئے۔

قریش کے 70 افراد مارے گئے (جن میں سے 36 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہوئے)۔

قریش کے 70 سردار قید ہوئے، جن میں حضرت عباسؓ (نبی ﷺ کے چچا)، عقیل بن ابی طالب اور سہیل بن عمرو شامل تھے۔


یہ وہ دن تھا جب دنیا نے دیکھ لیا کہ:
"فتح و شکست مادی طاقت سے نہیں بلکہ روحانی قوت، ایمان اور اللہ کی نصرت سے ہوتی ہے۔"


---

نتیجہ


غزوہ بدر کے تیسرے حصے میں مسلمانوں کی فیصلہ کن کامیابی اور ابو جہل جیسے دشمن کے انجام نے اسلام کے فروغ کی بنیاد رکھ دی۔ یہ واقعہ ہمیشہ یاد دلاتا ہے کہ ایمان اور قربانی کے ساتھ لڑی گئی جنگیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔


---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: ابو جہل کو کس نے قتل کیا؟

جواب: معاذ بن عمر، معاذ بن عفراء اور معوذ بن عفراء نے حملہ کیا جبکہ آخری وار حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کیا۔

سوال 2: جنگ بدر میں قریش کے کتنے سردار مارے گئے؟

جواب: 70 سردار مارے گئے، جن میں کئی بڑے نام شامل تھے۔

سوال 3: جنگ بدر میں مسلمانوں کے کتنے افراد شہید ہوئے؟

جواب: کل 14 صحابہ کرام شہید ہوئے۔


جنگ بدر کا واقعہ part 2






غزوہ بدر حصہ دوم میں جانیں کہ کس طرح ابو سفیان کے قافلے کی حفاظت کے بہانے قریش نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پڑھیں بدر کی جنگ کے پس منظر اور قریش کی سازش کی تفصیل۔






ہجرتِ مدینہ کے بعد صورتحال


ہجرت کے بعد مسلمانوں کو مکہ کے مشرکین کی طرف سے مسلسل ظلم و ستم اور جائیدادوں کے ضبط ہونے کا سامنا تھا۔ اسی لیے مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ قریش کے تجارتی قافلوں پر حملہ کریں تاکہ:

اپنی ضبط شدہ املاک کا بدلہ لے سکیں۔

قریش پر ایسا دباؤ ڈالیں کہ وہ مدینہ پر حملہ کرنے سے باز رہیں۔



---

ابو سفیان کا قافلہ اور خطرہ


624ء میں ابو سفیان بن حرب ایک بڑے تجارتی قافلے کی قیادت کرتے ہوئے شام سے مکہ واپس آ رہا تھا۔

اس قافلے میں 50,000 دینار کا سامان تھا۔

حفاظت کے لیے 70 محافظ تھے۔

مکہ کے تمام بڑے سرمایہ دار اس قافلے میں شریک تھے۔


ابو سفیان نے مسلمانوں کی تیاری دیکھ کر راستہ بدل لیا اور قافلہ بحیرۂ احمر کے راستے مکہ لے آیا۔


---

قریش کا منصوبہ – اسلامی ریاست کا خاتمہ


ابو سفیان کے قافلے کی حفاظت کے بہانے قریش نے اسلامی ریاست کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

اردگرد کے قبائل سے معاہدے کیے گئے۔

عورتوں نے تک اپنے زیورات اس مقصد کے لیے دیے۔

طے پایا کہ اس تجارتی منافع کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر خرچ کیا جائے۔



---

مکہ کا لشکر اور جنگی جوش


ابو سفیان کے قاصد نے مکہ پہنچ کر شور مچایا:
"محمد ﷺ اور ان کے ساتھی قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں، مدد کرو!"

یہ سن کر قریش کے ہزاروں افراد ہتھیاروں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ اگر چہ راستے میں انہیں خبر ملی کہ قافلہ بچ گیا ہے، لیکن پھر بھی انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا ہے۔


---

بدر کی طرف بڑھتا ہوا لشکر


قریش کا لشکر بدر کے قریب خیمہ زن ہوا، جہاں وہ پانی کے چشمے پر قابض ہو گئے۔ مسلمانوں کے پاس محدود وسائل تھے لیکن ایمان، اتحاد اور حضرت محمد ﷺ کی قیادت ان کی اصل طاقت تھی۔


---

نتیجہ


یہ ساری تیاری اور سازش کے باوجود، بدر میں قریش کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کی یہ فتح اسلام کی تاریخ میں ایک نئے دور کی شروعات ثابت ہوئی۔


---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: قریش نے مسلمانوں کے خلاف کیا منصوبہ بنایا؟

جواب: انہوں نے اردگرد قبائل سے اتحاد کیا اور تجارتی منافع کو جنگی تیاری پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوال 2: ابو سفیان نے قافلے کو کیسے بچایا؟

جواب: اس نے قافلے کو بحیرۂ احمر کے راستے مکہ واپس لے جا کر مسلمانوں کے حملے سے بچا لیا۔

سوال 3: قریش نے قافلہ بچ جانے کے باوجود جنگ کیوں جاری رکھی؟

جواب: ان کے سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔


---
‎غزوہ بدر حصہ دوم،

 ابو سفیان کا قافلہ، 

قریش کا منصوبہ، 

اسلامی ریاست کا خاتمہ،

 بدر کی

جنگ بدر کا واقعہ


 

غزوہ بدر – پہلا عظیم معرکہ اسلام


تعارف


غزوہ بدر (عربی: غَزْوَةُ بَدْرٍ) کو اسلامی تاریخ میں ایک فیصلہ کن اور عظیم معرکہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ جنگ 17 رمضان 2 ہجری، 13 مارچ 624ء کو بدر کے مقام پر لڑی گئی۔ قرآن میں اسے یوم الفرقان کہا گیا ہے، یعنی وہ دن جس دن حق اور باطل میں فرق واضح ہو گیا۔


---

پس منظر


ہجرت کے بعد مسلمانوں کی املاک مکہ والوں نے ضبط کر لی تھیں۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنا حق واپس لے سکیں اور قریش پر دباؤ ڈال سکیں۔

اسی دوران، حضرت محمد ﷺ کو خبر ملی کہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں ایک قافلہ شام سے واپس آ رہا ہے جس میں تقریباً 50,000 دینار کا سامان موجود تھا۔ اس قافلے کی حفاظت کے لیے 70 افراد مقرر تھے۔


---

قریش کی تیاری


ابو سفیان نے مسلمانوں کے منصوبے کا اندازہ لگاتے ہوئے قریش کو مدد کے لیے پیغام بھیجا۔ مکہ میں یہ خبر پہنچتے ہی ابو جہل (عمرو بن ہشام) نے تقریباً 1000 جنگجوؤں پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بدر کے قریب خیمہ زن ہو گیا۔


---

مسلمانوں کی حکمت عملی


حضرت محمد ﷺ نے تقریباً 313 مجاہدین کے ساتھ بدر کا رخ کیا۔ ان کے پاس محدود ہتھیار اور وسائل تھے، لیکن ایمان اور اتحاد ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔


---

جنگ کا آغاز


معرکہ کا آغاز مبارزت سے ہوا۔ پھر قریش نے تیروں کی بارش کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مگر مسلمانوں نے بھرپور جواب دیا اور ان کی صفیں توڑ دیں۔

اس جنگ میں کئی بڑے قریشی سردار ہلاک ہوئے، جن میں ابو جہل اور امیہ بن خلف بھی شامل تھے۔


---

نتیجہ اور اثرات


غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ملی۔ اس فتح نے:

حضرت محمد ﷺ کی قیادت کو مضبوط کر دیا۔

مدینہ کے قبائل کا اعتماد بڑھایا۔

بیرونی قبائل نے بھی مسلمانوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔


یہ جنگ اسلامی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی اور مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد مزید مضبوط ہو گئی۔


---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: غزوہ بدر کب لڑی گئی؟

جواب: یہ جنگ 17 رمضان 2 ہجری (13 مارچ 624ء) کو بدر کے مقام پر لڑی گئی۔

سوال 2: مسلمانوں اور قریش کی تعداد کتنی تھی؟

جواب: مسلمانوں کی تعداد تقریباً 313 جبکہ قریش کے لشکر کی تعداد تقریباً 1000 تھی۔

سوال 3: اس جنگ میں کون سے بڑے سردار مارے گئے؟

جواب: ابو جہل اور امیہ بن خلف جیسے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے۔

سوال 4: قرآن میں اس جنگ کو کس نام سے یاد کیا گیا؟

جواب: قرآن میں اسے یوم الفرقان کہا گیا ہے۔


غزوہ بدر 624ء میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان لڑی گئی پہلی بڑی جنگ تھی۔ جانیں کس طرح 313 مسلمانوں نے ابو جہل کی قیادت میں آئے 1000 قریشی لشکر کو شکست دی اور اسلام کو فیصلہ کن فتح ملی۔

جنگ احد کا واقعہ


 ‎

غزوہ اُحد کی مکمل کہانی پڑھیں: 

مسلمانوں کی شجاعت، غلطیوں اور اس عظیم معرکے سے ملنے والے سبق۔ جانیں کس طرح حضرت حمزہؓ شہید ہوئے اور نبی ﷺ کو زخم آئے۔



غزوہ اُحد – مسلمانوں کا امتحان اور صبر و استقامت کا معرکہ


تعارف


غزوہ اُحد، 3 ہجری (625ء) میں پیئش آیا۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا امتحان تھی۔ غزوہ بدر کی شاندار فتح کے بعد مشرکینِ مکہ بدلے کی آگ میں جل رہے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے ایک عظیم لشکر تیار کیا۔ اس جنگ نے مسلمانوں کو ثابت قدمی، اتحاد اور اللہ پر بھروسے کی اہمیت کا گہرا سبق دیا۔


---

جنگ کی تیاری


مشرکینِ مکہ نے ابو سفیان کی قیادت میں جنگ کی بھرپور تیاری کی۔

3000 سپاہیوں پر مشتمل لشکر میں 700 زرہ پوش، 200 گھوڑے اور 300 اونٹ شامل تھے۔

عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ کر فوج کو جوش دلاتی تھیں۔

ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے حضرت حمزہؓ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اپنے غلام وحشی کو اس مقصد کے لیے تیار کیا۔



---

مسلمانوں کا مشورہ اور روانگی


نبی کریم ﷺ کو مکہ کی سازش کی خبر حضرت عباسؓ (آپ ﷺ کے چچا) کے ذریعے ملی۔

مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مدینہ سے باہر جا کر جنگ کی جائے۔

مسلمانوں کی تعداد 1000 تھی لیکن منافق عبد اللہ بن اُبی 300 آدمیوں کے ساتھ واپس ہو گیا۔

یوں مسلمانوں کی تعداد صرف 700 رہ گئی۔



---

جنگ کا آغاز


احد کے دامن میں لشکر آمنے سامنے ہوئے۔

نبی ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو درہ عینین پر مقرر کیا اور حکم دیا کہ کسی صورت اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔

جنگ شروع ہوئی، مسلمان غالب آنے لگے اور قریش کے کئی لوگ مارے گئے۔



---

شکست کی وجہ


ابتدائی کامیابی کے بعد مسلمان یہ سمجھے کہ جنگ ختم ہو گئی۔

بہت سے تیر انداز اپنی جگہ چھوڑ کر مالِ غنیمت اکٹھا کرنے میں لگ گئے۔

صرف 10 تیر انداز باقی رہ گئے۔

خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں تھے) نے موقع غنیمت جان کر درے پر قبضہ کیا اور پیچھے سے حملہ کر دیا۔

اچانک حالات بدل گئے اور مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔



---

نبی ﷺ کی ثابت قدمی


اس ہجوم میں یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ نبی ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔

کچھ صحابہ نے فرار اختیار کیا لیکن کچھ جان نثار رسول اللہ ﷺ کے گرد ڈٹ گئے۔

اسی دوران نبی ﷺ کا دانت شہید ہوا، چہرہ زخمی ہوا اور حضرت حمزہؓ کو شہید کر دیا گیا۔

نبی ﷺ نے حضرت علیؓ کو ذوالفقار تلوار عطا فرمائی۔



---

ہندہ کا ظلم


ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا۔

کئی شہداء کے کان اور ناک کاٹ ڈالے گئے۔

یہ منظر نبی ﷺ کے لیے انتہائی رنج کا باعث بنا۔



---

جنگ کا اختتام


قریش نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے بعد واپس مکہ کا رخ کیا۔

مسلمان سخت زخمی اور پریشان تھے لیکن اللہ نے قرآن میں انہیں صبر اور استقامت کا درس دیا۔


> "جب تم گھبرا کر بھاگ رہے تھے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول ﷺ تمہیں پکار رہے تھے..."
(آل عمران: 153)




---

نتیجہ اور اسباق 


غزوہ اُحد مسلمانوں کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی۔

اس جنگ نے یہ سبق دیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت، اتحاد اور نظم و ضبط کامیابی کی کنجی ہیں۔

نافرمانی اور دنیا کی محبت نقصان کا سبب بنتی ہے۔



---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: غزوہ اُحد کب پیش آیا؟

جواب: 7 شوال 3 ہجری (23 مارچ 625ء) کو۔

سوال 2: مسلمانوں کو شکست کیوں ہوئی؟

جواب: درہ پر مقرر تیر اندازوں نے نبی ﷺ کا حکم نظر انداز کیا اور اپنی جگہ چھوڑ دی۔

سوال 3: حضرت حمزہؓ کو کس نے شہید کیا؟

جواب: وحشی نامی غلام نے۔


منگل، 1 جولائی، 2025

مسجد نبوی





🕌 مسجد نبوی کی تعمیر: تاریخ، مراحل اور اہمیت



مسجد نبوی کی تعمیر کی مکمل تاریخ، اس کے مختلف مراحل، اسلامی اہمیت، اور جدید توسیع کے بارے میں جانیں۔ مسجد نبوی مدینہ منورہ میں ایمان کا مرکز اور مسلمانوں کا روحانی سرمایہ ہے۔


مسجد نبوی کی تعمیر

مسجد نبوی کی تاریخ

مسجد نبوی کی توسیع

روضہ رسول ﷺ

اسلامی تاریخ کی مساجد

مدینہ منورہ



---

تعارف


مسجد نبوی ﷺ اسلام کی دوسری سب سے مقدس مسجد ہے، جس کی بنیاد براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی۔ یہ مسجد نہ صرف عبادت کی جگہ ہے بلکہ اخوت، اتحاد اور روحانیت کی علامت بھی ہے۔


---

مسجد نبوی کی بنیاد


ہجرت مدینہ اور زمین کا انتخاب


ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے ایک مسجد بنانے کا فیصلہ کیا۔

سہل اور سہیل نامی دو یتیم بچوں کی زمین خرید کر مسجد کی تعمیر شروع کی گئی۔


ابتدائی تعمیر


دیواریں: کچی اینٹوں اور پتھروں سے۔

چھت: کھجور کے تنوں اور پتوں سے۔

فرش: ریت اور مٹی سے۔

سادہ مگر پر نور مسجد جس میں ایمان کی روشنی تھی۔



---

رسول اللہ ﷺ کی شمولیت


رسول اللہ ﷺ نے خود اینٹیں اٹھا کر مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا، جس نے صحابہ کرام کو محنت اور اخوت کا عملی سبق دیا۔


---

مسجد نبوی کے تعمیراتی مراحل


1. ابتدائی مسجد (622ء)

سادہ عمارت، صرف نماز کے لیے۔

2. خلافتِ عمر بن خطابؓ

رقبہ بڑھایا گیا۔

چھت اور دیواریں مضبوط کی گئیں۔


3. خلافتِ عثمان بن عفانؓ

مضبوط تعمیرات، لکڑی اور پتھروں کا استعمال۔

مزید وسعت۔


4. اموی و عباسی دور

سنگ مرمر اور نقش و نگار کا اضافہ۔

مزید توسیع۔


5. عثمانی خلافت

شاندار گنبد اور ستون شامل ہوئے۔


6. سعودی دور

جدید سہولیات: ایئرکنڈیشننگ، خودکار چھتریاں، وسیع صحن۔

لاکھوں نمازیوں کی گنجائش۔



---

مسجد نبوی کی اہمیت


روضہ رسول ﷺ اسی مسجد میں ہے۔

یہاں کی ایک نماز کا ثواب 1000 نمازوں کے برابر ہے (سوائے مسجد الحرام کے)۔

مسلمانوں کے اتحاد اور اخوت کی علامت۔



---

جدید دور کی مسجد نبوی


ایئرکنڈیشنڈ ہالز۔

خودکار کھلنے اور بند ہونے والی چھتریاں۔

لاکھوں نمازیوں کی سہولت کے لیے وسیع صحن۔

دنیا بھر کے زائرین کے لیے مرکز۔



---

FAQs (اکثر پوچھے جانے والے سوالات)


❓ مسجد نبوی کی بنیاد کب رکھی گئی؟


ہجرت مدینہ کے بعد 622ء میں رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبوی کی بنیاد رکھی۔

❓ مسجد نبوی کی پہلی توسیع کس نے کی؟


خلافتِ عمر بن خطابؓ میں مسجد نبوی کی پہلی توسیع کی گئی۔

❓ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب کتنا ہے؟


مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں کے برابر ہے، سوائے مسجد الحرام کے۔

❓ مسجد نبوی کی سب سے بڑی توسیع کب ہوئی؟


سعودی دور میں، جب جدید سہولیات اور لاکھوں نمازیوں کے لیے گنجائش پیدا کی گئی۔


---

نتیجہ


مسجد نبوی ﷺ صرف ایک مسجد نہیں بلکہ اسلام کی روحانی، سماجی اور تاریخی پہچان ہے۔ اس کی تعمیر سے لے کر آج تک یہ مسلمانوں کے دلوں کا مرکز اور ایمان کا قلعہ ہے۔


امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...