Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

اتوار، 27 جولائی، 2025

عید الفطر

 

عید الفطر کا تعارف اور اہمیت 

عید الفطر کا پس منظر

فقہی اختلافات

عید کی نماز کی خصوصیات

عید الفطر کے بعد کی خوشیاں





عید الفطر کا تعارف اور اہمیت


عید الفطر اسلام کے دو بڑے اور اہم تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے اور اسے رمضان المبارک کے اختتام پر خوشی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن روزہ داروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام اور خوشی کا پیغام ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان اس دن کو نہایت جوش و خروش سے مناتے ہیں اور مختلف طریقوں سے خوشیاں بانٹتے ہیں۔



---


عید الفطر کی نماز


عید کی نماز کی خصوصیات


عید الفطر کی نماز دو رکعتوں پر مشتمل ہوتی ہے جو صرف جماعت کے ساتھ ادا کی جا سکتی ہے۔ یہ نماز عام طور پر کھلے میدانوں یا بڑے اجتماعات میں پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز میں چھ اضافی تکبیریں شامل کی جاتی ہیں جو عام نماز سے مختلف ہیں۔


فقہی اختلافات


حنفی مکتب فکر: پہلی رکعت کے آغاز میں تین تکبیریں اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین تکبیریں۔


دیگر سنی مکاتب: عام طور پر 12 تکبیریں، جو سات اور پانچ کے گروپوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔


شیعہ اسلام: پہلی رکعت میں رکوع سے پہلے چھ تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں۔




---


عید الفطر کے بعد کی خوشیاں


عید الفطر کی خاص پہچان خوشیاں اور میل جول ہیں۔ لوگ نماز کے بعد گلے ملتے ہیں، میٹھے پکوان تقسیم کرتے ہیں اور مختلف کھانوں سے ضیافت کرتے ہیں۔ اسی لیے اس تہوار کو "میٹھی عید" یا "شوگر فیسٹول" بھی کہا جاتا ہے۔



---


عید الفطر کا پس منظر


ایک حدیث کے مطابق جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ دو دن خوشی منانے کے لیے مخصوص رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں مسلمانوں کو دو بڑے دن عطا کیے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ اس طرح عید الفطر مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بڑی خوشی اور شکر گزاری کا دن ہے۔



---


عید الفطر کے حوالے سے سوالات (FAQ)


سوال 1: عید الفطر کب منائی جاتی ہے؟


جواب: عید الفطر شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے، جو رمضان المبارک کے اختتام کے فوراً بعد آتی ہے۔


سوال 2: عید الفطر کی نماز کیسے پڑھی جاتی ہے؟


جواب: یہ نماز دو رکعت جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور اس میں اضافی تکبیریں شامل ہوتی ہیں۔ ان تکبیروں کی تعداد فقہی مسلک کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔


سوال 3: عید الفطر کو "میٹھی عید" کیوں کہا جاتا ہے؟


جواب: عید الفطر پر لوگ خاص طور پر میٹھے پکوان بناتے ہیں اور ایک دوسرے میں تقسیم کرتے ہیں، اسی وجہ سے اسے "میٹھی عید" کہا جاتا ہے۔


سوال 4: عید الفطر کا پس منظر کیا ہے؟


جواب: یہ عید رسول اللہ ﷺ کی ہجرت مدینہ کے بعد مقرر کی گئی جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے دو بڑے دن، عید الفطر اور عید الاضحی، عطا فرمائے۔


سوال 5: عید الفطر کی اہمیت کیا ہے؟


جواب: عید الفطر شکر گزاری، خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا دن ہے۔ یہ روزہ داروں کے لیے اللہ کا انعام ہے او

ر مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے اور محبت کو بڑھاتا ہے۔



---

درود شریف کی فضیلت



درود شریف کی فضیلت اور برکات جانیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں درود شریف پڑھنے کے فوائد، اجر و ثواب اور اس کی اہمیت پر جامع بلاگ۔




 

1. درود شریف کی فضیلت اور برکات – قرآن و حدیث کی روشنی میں



2. درود شریف پڑھنے کے فوائد اور اجر و ثواب



3. درود شریف کی اہمیت: روحانی سکون اور مغفرت کا ذریعہ



4. درود شریف کے انعامات اور برکتیں – ایک جامع رہنمائی



5. درود شریف کا مقام و مرتبہ اور پڑھنے کے فضائل


درود شریف کی فضیلت اور برکات


قرآن میں درود شریف کا ذکر


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰة بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر صلوٰة اور خوب سلام بھیجو۔"
(سورة الاحزاب: 56)

یہ آیت مبارکہ ہمیں واضح طور پر یہ تعلیم دیتی ہے کہ درود شریف پڑھنا صرف عبادت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔


---

درود شریف کی اہمیت احادیث کی روشنی میں


اللہ کی رحمت کا نزول


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے، اللہ رب العالمین اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔"
(مسلم، نسائی، ترمذی)


---

دعا کی قبولیت اور غموں کا علاج


حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اپنی دعا میں کتنا وقت درود شریف کے لیے وقف کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
"جتنا چاہو، لیکن اگر اپنی ساری دعا درود شریف کے لیے وقف کر دو تو یہ تمہارے سارے غموں کے لیے کافی ہوگا اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنے گا۔"
(ترمذی)


---

جبریلؑ کی بد دعا اور درود شریف


حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ہلاکت ہو اس شخص کے لیے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے۔"
(حاکم)

یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ درود شریف نہ پڑھنا محرومی اور خسارے کا سبب ہے۔


---

درود شریف کے فوائد اور برکات


اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول

گناہوں کی بخشش

غموں اور پریشانیوں سے نجات

دعا کی قبولیت میں آسانی

رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا ذریعہ

دنیا اور آخرت میں کامیابی



---

❓FAQ — عام سوالات و جوابات


سوال 1: درود شریف پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟


جواب: سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔


---

سوال 2: کیا درود شریف کے لیے مخصوص وقت مقرر ہے؟


جواب: درود شریف کے لیے کوئی وقت مخصوص نہیں۔ دن اور رات کے کسی بھی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، خاص طور پر نمازوں کے بعد، دعا کرتے وقت اور جمعہ کے دن۔


---

سوال 3: درود شریف پڑھنے کی کم سے کم مقدار کیا ہونی چاہیے؟


جواب: کم سے کم دن میں ایک مرتبہ پڑھنا چاہیے، لیکن کثرت سے پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ زیادہ برکات حاصل ہوں۔


---


سوال 4: کیا درود شریف دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے؟


جواب: جی ہاں، علما کے مطابق دعا کی ابتدا اور انتہا درود شریف سے کرنا دعا کی قبولیت کے لیے بہترین طریقہ ہے۔


---

سوال 5: درود شریف نہ پڑھنے کا کیا نقصان ہے؟


جواب: احادیث میں آیا ہے کہ جس کے سامنے نبی کریم ﷺ کا ذکر ہو اور وہ درود شریف نہ پڑھے، اس پر جبریلؑ کی بد دعا ہے اور وہ ہلاکت کا مستحق قرار پاتا ہے۔

 اہم نکات 


درود شریف کی فضیلت


درود شریف پڑھنے کے فوائد

درود شریف کے برکات

درود شریف کی اہمیت

درود شریف احادیث

درود شریف قرآن میں

اللّٰہ پر یقین

اس بلاگ میں ہم اللہ تعالیٰ پر یقین کرنے کا مطلب ایمان کے ثابت قدم رہنے مطلب جانے گے


اللہ پر ایمان


ایمان باللہ کا مطلب

توحید کی اہمیت

اللہ کی صفات

اللہ کی عبادت

ایمان کی بنیاد

اسلامی عقیدہ

اللہ کی رضا

آخرت کا یقین

ایمان اور توحید








 


اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مطلب اور اہمیت | توحید، صفاتِ الٰہی 



اور عبادت‎اسلام میں اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ہے اس کی مکمل وحدانیت کو تسلیم کرنا، اسے کائنات کا واحد خالق، قائم کرنے والا، اور منصف تسلیم کرنا، اور اس کی مرضی کے تابع ہونا۔ اس میں اس کی صفات پر یقین، اسے واحد حقیقی خدا تسلیم کرنا، اور ہر چیز پر اس کی حاکمیت کو قبول کرنا شامل ہے۔ یہ عقیدہ اسلامی عقیدے کی بنیاد بناتا ہے اور ایک مسلمان کے عالمی نظریہ کو تشکیل دیتا ہے، ان کے اعمال کی رہنمائی کرتا ہے اور زندگی کا مقصد فراہم کرتا ہے

‎۔ توحید (خدا کی وحدانیت):

‎ اسلامی عقیدہ کا مرکز توحید، اللہ کی مطلق وحدانیت اور انفرادیت کا تصور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف ایک ہی خدا ہے، اور اس کا کوئی شریک، ہمسر یا شریک نہیں ہے۔ 

‎اللہ کی صفات: 

‎مسلمان اللہ کی مختلف صفات پر یقین رکھتے ہیں، جیسے اس کی قدرت، علم، رحمت اور انصاف۔ یہ صفات کامل اور مطلق سمجھی جاتی ہیں، جو صرف اور صرف اللہ کی ہیں۔ اللہ کی ربوبیت: اللہ پر یقین میں اس کی مطلق ربوبیت کو تسلیم کرنا، اسے کائنات کا خالق، قائم کرنے والا، اور حاکم تسلیم کرنا بھی شامل ہے

‎۔ اللہ کی عبادت: 

‎مسلمان صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اپنی دعاؤں، دعاؤں اور عبادتوں کو صرف اسی کے لیے وقف کرتے ہیں۔

‎ رہنمائی اور مقصد:

‎ اللہ پر یقین زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، وجود کو معنی اور مقصد پیش کرتا ہے۔ احتساب: مسلمانوں کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوں گے، جس سے صالح زندگی گزارنے کی اہمیت کو تقویت ملتی ہے۔

‎ اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرنا جی

‎: اسلام اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، اس کے احکام کو قبول کرنے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔


FAQ – سوالات اور جوابات


سوال 1: اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟

جواب: اللہ کو واحد خالق، مالک اور معبود ماننا، اس کی صفات پر یقین رکھنا اور زندگی اسی کے احکام کے مطابق گزارنا۔


سوال 2: توحید کیوں اہم ہے؟

جواب: توحید اسلام کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔


سوال 3: اللہ کی صفات پر ایمان لانے سے کیا فائدہ ہے؟

جواب: یہ ایمان انسان کے دل میں خوفِ خدا، محبتِ الٰہی اور زندگی میں عدل و انصاف پیدا کرتا ہے۔


سوال 4: اللہ پر ایمان رکھنے والا مسلمان کیسے زندگی گزارتا ہے؟

جواب: وہ صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے، برائی سے بچتا ہے، نیکی کرتا ہے اور آخرت کی تیاری کرتا ہے۔



---


دعا


"اے اللہ! ہمیں اپنا سچا مومن بنا، توحید پر قائم رکھ، اپنے احکام کی پیروی کی توفیق عطا فرما، اور قیامت کے دن اپنے مقرب بندوں می

ں شامل فرما۔ آمین۔"


جہاد کرنا

  


 ‎وضاحت 



"جہاد کا مطلب صرف جنگ نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جدوجہد اور کوشش ہے۔ اسلام میں جہاد کی اقسام، جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی وضاحت، اور جہاد کے بارے میں عام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے مکمل بلاگ پڑھیں۔"


---

جہاد کا مطلب


جہاد کیا ہے


جہاد اسلام میں


جہاد کی اقسام


جہاد اکبر اور اصغر


جہاد کا اصل تصور


جہاد کے بارے میں غلط فہمیاں


جہاد قرآن و حدیث کے مطابق


اسلام میں جہاد کی وضاحت


جہاد اور اسلام




جہاد کا حقیقی تصور | اسلام میں جدوجہد کی اہمیت


جہاد کا تعارف


اسلام میں جہاد کا مطلب عام طور پر اللہ کی راہ میں کوشش اور جدوجہد ہے۔ یہ صرف جنگ یا قتال تک محدود نہیں بلکہ اس میں زندگی کے مختلف پہلو شامل ہیں، جیسے اپنے نفس پر قابو پانا، برائی کے خلاف کھڑا ہونا، اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا۔


---

جہاد کی اقسام


1. اندرونی جہاد (جہادِ اکبر)


یہ سب سے بڑی جدوجہد ہے، جس میں انسان اپنی خواہشات، گناہوں اور فتنوں کے خلاف لڑتا ہے۔ اس کا مقصد تقویٰ اور صالح زندگی اختیار کرنا ہے۔

2. بیرونی جہاد (جہادِ اصغر)


یہ جہاد کئی صورتوں میں ہو سکتا ہے:

زبانی و تحریری جہاد: اسلام کا دفاع الفاظ، قلم یا تقریر کے ذریعے کرنا۔

سماجی و سیاسی جہاد: ایک منصف اور عادلانہ معاشرے کی تعمیر کے لیے جدوجہد۔


دفاعی جہاد: اگر مسلمانوں پر حملہ ہو تو ان کا دفاع کرنا۔ یہ صرف مخصوص حالات میں جائز ہے اور اس کے سخت شرائط ہیں۔



---

جہاد کے بارے میں غلط فہمیاں


جہاد کو اکثر صرف "مقدس جنگ" کہا جاتا ہے جو درست نہیں۔

اسلام میں جہاد کا مقصد صرف تشدد نہیں بلکہ انصاف، اصلاح اور اللہ کی رضا ہے۔

اصل جہاد انسان کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔



---

جہاد اور سیاق و سباق کی اہمیت


جہاد کی درست تشریح اس کے سیاق و سباق پر منحصر ہے۔

یہ روحانی و اخلاقی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔

یہ برائی کو روکنے اور اچھائی کو فروغ دینے کی اجتماعی جدوجہد بھی ہے۔



---

نتیجہ


جہاد اسلام کا ایک وسیع تصور ہے جو صرف جنگ تک محدود نہیں۔ یہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی ذات اور معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔


---

❓ FAQ (اکثر پوچھے جانے والے سوالات)


جہاد کا اصل مطلب کیا ہے؟


جہاد کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں کوشش اور جدوجہد کرنا، خواہ وہ اپنی ذات کے خلاف ہو یا معاشرے میں برائی کے خلاف۔

کیا جہاد صرف جنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے؟


نہیں، جہاد کا مطلب صرف جنگ نہیں۔ یہ ایک وسیع تصور ہے جس میں روحانی، سماجی، اور معاشرتی جدوجہد شامل ہے۔

جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر میں کیا فرق ہے؟


جہادِ اکبر: نفس اور گناہوں کے خلاف جدوجہد۔

جہادِ اصغر: دشمن کے خلاف دفاعی جنگ یا دیگر عملی کوششیں۔


کیا جہاد ہمیشہ ہتھیار اٹھانے کو کہتے ہیں؟


نہیں، جہاد میں سب سے بڑا حصہ اخلاقی و روحانی جدوجہد کا ہے۔ مسلح جہاد صرف مخصوص حالات میں جائز ہے۔


جمعرات، 3 جولائی، 2025

جنگ خندق کا واقعہ



غزوہ خندق یا جنگ احزاب 5 ہجری میں مدینہ کے قریب لڑی گئی، جب قریش اور دیگر قبائل نے مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت سلمان فارسی کے مشورے پر خندق کھودی گئی جس نے دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ مکمل تفصیل، پس منظر اور نتائج جانیں۔


---




وضاحت 

 ‎شوال۔ ذی القعدہ 5

‎ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔

‎جنگ احد کے بعد قریش، یہودی اور عرب کے دیگر بت پرست قبائل کے درمیان میں طے پایا کہ مل جل کر اسلام کو ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں پہلا معاہدہ قریش کے سردار ابوسفیان اور مدینہ سے نکالے جانے والے یہودی قبیلہ بنی نضیر کے درمیان میں ہوا۔ اس کے بعد بنی نضیر کے نمائندے نجد روانہ ہوئے اور وہاں کے مشرک قبائل 'غطفان' اور 'بنی سلیم' کو ایک سال تک خیبر کا محصول دے کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا۔[5] اسلام کے خلاف اس اتحاد کو قرآن نے احزاب کا نام دیا ہے۔ ان میں ابوسفیان کی قیادت میں 4000 پیدل فوجی، 300 گھڑ سوار اور 1500 کے قریب شتر سوار (اونٹوں پر سوار) شامل تھے۔ دوسری بڑی طاقت قبیلہ غطفان کی تھی جس کے 1000 سوار انینہ کی قیادت میں تھے۔ اس کے علاوہ بنی مرہ کے 400، بنی شجاع کے 700 اور کچھ دیگر قبائل کے افراد شامل تھے۔ مجموعی طور پر تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی جو اس زمانے میں اس علاقے کے لحاظ سے ایک انتہائی بڑی فوجی طاقت تھی۔ یہ فوج تیار ہو کر ابو سفیان کی قیادت میں فروری یا مارچ 627ء میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے مدینہ روانہ ہو گئی۔[6][7]

‎حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سازش کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب سے مشورہ کیا۔ سلمان فارسی نے ایک دفاعی خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو عربوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ مشورہ پسند آیا چنانچہ خندق کی تعمیر شروع ہو گئی۔ مدینہ کے اردگرد پہاڑ تھے اور گھر ایک دوسرے سے متصل تھے جو ایک قدرتی دفاعی فصیل کا کام کرتے تھے۔ ایک جگہ کوہِ عبیدہ اور کوہ راتج کے درمیان میں سے حملہ ہو سکتا تھا اس لیے وہاں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی کھدائی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمیت سب لوگ شریک ہوئے۔ اس دوران میں سلمان فارسی نہایت جوش و خروش سے کام کرتے رہے اور اس وجہ سے انصار کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں اور مہاجرین کہنے لگے کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ 'سلمان میرے اہلِ بیت سے ہیں'۔ کھدائی کے دوران میں سلمان فارسی کے سامنے ایک بڑا سفید پتھر آ گیا جو ان سے اور دوسرے ساتھیوں سے نہ ٹوٹا۔ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود تشریف لائے اور کلہاڑی کی ضرب لگائی۔ ایک بجلی سی چمکی اور پتھر کا ایک ٹکرا ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تکبیر بلند کی۔ دوسری اور تیسری ضرب پر بھی ایسا ہی ہوا۔ سلمان فارسی نے سوال کیا کہ ہر دفعہ بجلی سی چمکنے کے بعد آپ تکبیر کیوں بلند کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ جب پہلی دفعہ بجلی چمکی تو میں نے یمن اور صنعاء کے محلوں کو کھلتے دیکھا۔ دوسری مرتبہ بجلی چمکنے پر میں نے شام و مغرب کے کاخہائے سرخ کو فتح ہوتے دیکھا اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخہائے کسریٰ میری امت کے ہاتھوں مسخر ہو جائیں گے'۔۔[8] بیس دن میں خندق مکمل ہو گئی۔ جو تقریباً پانچ کلومیٹر لمبی تھی، پانچ ہاتھ (تقریباً سوا دو سے ڈھائی میٹر) گہری تھی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار جست لگا کر بھی پار نہ کر سکتا تھا۔[9] مسلمانوں کی تعداد 3000 کے قریب تھی جو پندرہ سال سے بڑے تھے اور جنگ میں حصہ لے سکتے تھے۔[6]

ترتیب



غزوہ خندق (جنگ احزاب) – اسلام کی عظیم دفاعی حکمت عملی


تعارف


غزوہ خندق یا جنگِ احزاب اسلام کی اہم ترین جنگوں میں سے ایک ہے، جو سنہ 5 ہجری (مارچ 627ء) میں مدینہ منورہ کے قریب لڑی گئی۔ اس جنگ میں مشرکین مکہ نے قریش، یہودیوں اور دیگر قبائل کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن مسلمانوں نے حکمتِ عملی اور ایمان کی قوت سے دشمن کے بڑے اتحاد کو شکست دی۔


---

پس منظر – جنگ کی تیاری


جنگ احد کے بعد قریش، یہودی اور دیگر مشرک قبائل نے طے کیا کہ اسلام کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑا اتحاد بنایا جائے۔

قریش کے سردار ابوسفیان نے بنی نضیر کے یہودی قبیلے اور دیگر قبائل جیسے غطفان، بنی سلیم وغیرہ سے معاہدے کیے۔

کل فوجی طاقت تقریباً 10,000 کے قریب تھی جو اس وقت کے حساب سے ایک بڑی لشکر کشی تھی۔



---

مسلمانوں کی حکمتِ عملی – خندق کی کھدائی


مسلمانوں کی تعداد صرف 3,000 تھی۔

حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے پر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی، جو عرب میں پہلی مرتبہ کیا گیا دفاعی طریقہ تھا۔

خندق تقریباً 5 کلومیٹر لمبی، ڈھائی میٹر گہری اور اتنی چوڑی تھی کہ گھوڑا جست لگا کر بھی پار نہ کر سکتا تھا۔

اس دوران حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خندق کھودنے میں شریک رہے۔



---

حضرت سلمان فارسیؓ کا کردار


سلمان فارسیؓ نے خندق کھدوانے کی تجویز دی۔

خندق کی کھدائی کے دوران ایک بڑا پتھر آیا جو صحابہ سے نہ ٹوٹا۔

رسول اللہ ﷺ نے تین بار اس پر ضرب لگائی اور ہر بار روشنی چمکی۔

آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے پہلی ضرب پر یمن کے محلات، دوسری پر شام و مغرب کے قلعے، اور تیسری پر ایران کے محلات اپنی امت کے ہاتھوں فتح ہوتے دیکھے۔



---

نتیجہ – دشمن کی پسپائی


قریش اور اتحادی قبائل نے تقریباً ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ کیا لیکن خندق کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔

مسلسل ناکامی اور نقصان کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس لوٹ گئے۔

اس جنگ کو غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا گیا کیونکہ یہ مختلف قبائل کا اتحاد تھا۔



---

قرآن میں ذکر


اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کا ذکر سورۃ الاحزاب میں کیا ہے، جہاں مسلمانوں کی ثابت قدمی اور اللہ کی نصرت کو بیان کیا گیا ہے۔


---

✨ FAQ – عام سوالات و جوابات


❓ غزوہ خندق کب لڑی گئی؟


غزوہ خندق 5 ہجری (مارچ 627ء) میں مدینہ کے قریب لڑی گئی۔

❓ اس جنگ کو جنگ احزاب کیوں کہا جاتا ہے؟


کیونکہ مختلف قبائل اور گروہوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کیا تھا، اس لیے اس جنگ کو "احزاب" (یعنی گروہوں) کی جنگ کہا جاتا ہے۔

❓ خندق کھودنے کا مشورہ کس نے دیا؟


حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو ایرانی جنگی حکمت عملی تھی۔

❓ مشرکین کی فوج کتنی تھی؟


تقریباً 10,000 کے قریب فوجی، جن میں قریش، یہودی اور دوسرے قبائل شامل تھے۔

❓ مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی؟


مسلمانوں کی تعداد صرف 3,000 تھی۔

❓ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟


اللہ کی مدد اور مسلمانوں کی حکمتِ عملی کی بدولت مشرکین ناکام و نامراد واپس لوٹ گئے۔

اہم مضامین 


غزوہ خندق

جنگ احزاب

خندق کی جنگ

حضرت سلمان فارسی کا کردار

جنگ خندق کا پس منظر

مدینہ کا محاصرہ

جنگ احزاب قرآن میں

غزوہ خندق 5 ہجری

غزوہ خندق کی تفصیل

جنگ خندق اسلامی تاریخ

جنگ خیبر کا واقعہ part 2


 ‎

حصہ دوم


غزوہ خیبر 



حضرت علیؓ کے ہاتھوں مرحب کی ہلاکت اور خیبر کی فتح


---

ابتدائی صورتحال


یہودی قبائل نے اپنی عورتوں اور بچوں کو ایک قلعے میں جبکہ مال و اسباب کو دوسرے قلعے میں جمع کیا اور تیر انداز مقرر کر دیے۔ مسلمانوں نے ایک کے بعد ایک پانچ قلعے فتح کر لیے۔ ان جھڑپوں میں پچاس مجاہد زخمی ہوئے اور ایک شہید ہوئے۔


---

قلعہ قموص کی اہمیت


قلعہ قموص سب سے مضبوط اور مرکزی قلعہ تھا جو پہاڑی پر بنا ہوا تھا۔

مسلمانوں نے باری باری حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کی قیادت میں افواج بھیجیں مگر کامیابی نہ ملی۔



---

حضرت علیؓ کو علم دینا


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ کبھی شکست نہ کھائے گا۔"

اگلے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بلایا گیا، جنہیں آشوب چشم تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی بینائی فوراً درست ہوگئی۔


---

مرحب کے ساتھ مقابلہ


مرحب کا بھائی سب سے پہلے مقابلے میں آیا مگر حضرت علیؓ نے اسے قتل کر دیا۔

اس کے بعد مرحب خود رجز پڑھتا ہوا آیا۔

حضرت علیؓ نے ایک ہی وار میں اس کا سر اور خود (ہیلمٹ) دو ٹکڑے کر دیے۔

مرحب کی موت کے بعد یہودی خوفزدہ ہو گئے اور قلعے میں چھپ گئے۔



---

قلعے کا دروازہ


حضرت علیؓ نے قلعے کا بھاری دروازہ اکھاڑ کر خندق پر ڈال دیا، جسے عموماً بیس آدمی مل کر کھولتے تھے۔ اس کے بعد مسلمان گھڑسواروں سمیت اندر داخل ہو گئے اور قلعہ فتح ہوگیا۔


---

معاہدہ خیبر


مسلمانوں کو شاندار فتح ملی۔

یہودیوں کو ان کی درخواست پر خیبر میں رہنے کی اجازت دی گئی۔

شرط یہ رکھی گئی کہ وہ اپنی آمدنی کا نصف بطور جزیہ مسلمانوں کو دیں گے۔

مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ جب چاہیں، یہودیوں کو خیبر سے نکال سکتے ہیں۔



---

حضرت صفیہؓ کا نکاح


جنگ میں بنی نضیر کے سردار حُیی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ قید ہوئیں۔

رسول اللہ ﷺ نے انہیں آزاد کر کے نکاح کر لیا۔



---

📌 FAQ – سوالات اور جوابات


سوال 1: قلعہ قموص کیوں سب سے اہم تھا؟

جواب: یہ خیبر کا سب سے بڑا اور مضبوط قلعہ تھا جو پہاڑی پر تعمیر تھا اور اس کی حفاظت کے لیے بہترین تیر انداز تعینات تھے۔

سوال 2: مرحب کو کس نے قتل کیا؟

جواب: مرحب کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک ہی وار میں قتل کیا۔

سوال 3: حضرت علیؓ کی آنکھوں کا آشوب چشم کیسے ٹھیک ہوا؟

جواب: رسول اللہ ﷺ نے اپنے لعاب دہن سے ان کی آنکھوں پر مسح کیا، جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے تندرست ہوگئیں۔

سوال 4: یہودیوں کے ساتھ کیا معاہدہ ہوا؟

جواب: انہیں خیبر میں رہنے کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ اپنی آمدنی کا نصف جزیہ کے طور پر مسلمانوں کو دیں۔

سوال 5: حضرت صفیہؓ کا کیا مقام ہوا؟

جواب: حضرت صفیہؓ کو آزاد کر کے رسول اللہ ﷺ نے نکاح فرمایا اور وہ امہات المؤمنین میں شامل ہو گئیں۔


---

غزوہ خیبر حصہ دوم کے اہم مضامین 


حضرت علی اور مرحب

خیبر کا قلعہ قموص

حضرت صفیہ کا نکاح

معاہدہ خیبر

یہودی قبائل خیبر

اسلام کی فتوحات

جزیہ کا نظام

حضرت علی کا کارنامہ

رسول اللہ ﷺ کی فتح



جنگ خیبر کب کیسے وقوع پذیر ہوئی

 

حصہ اول 



جنگ خیبر کے واقعے کی تفصیل 

 ‎


---

غزوہ خیبر (628 عیسوی) – مسلمانوں کی عظیم فتح



---

تعارف


غزوہ خیبر (عربی: غَزْوَة خَيْبَر) اسلامی تاریخ کی ایک اہم جنگ تھی جو 628 عیسوی میں مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں واقع علاقے خیبر میں ہوئی۔ یہ جنگ مسلمانوں اور یہودی قبائل کے درمیان لڑی گئی، جس نے اسلامی فوجی طاقت کو نئی تقویت بخشی۔


---

خیبر کا مقام اور پس منظر


خیبر مدینہ منورہ سے تقریباً 150 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا۔

یہ علاقہ یہودی قبائل کی بڑی برادری کا مرکز تھا۔

یہاں مضبوط قلعے اور زراعت کی زمینیں موجود تھیں، جس کی وجہ سے یہ ایک اہم معاشی اور عسکری طاقت تھا۔



---

جنگ کی ابتدا


جب رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں کی فوج خیبر کی طرف روانہ ہوئی تو:

بنو غطفان اور دیگر یہودی حلیف قبائل مسلمانوں کے خلاف کوئی مدد نہ کر سکے۔

قلعہ بند یہودی افواج کمزور ہو گئیں۔

مختصر جھڑپوں کے بعد مسلمانوں نے خیبر کو فتح کر لیا۔



---

مرحب بن الحارث کی ہلاکت


یہودی فوج کے کمانڈر مرحب بن الحارث کو حضرت علی بن ابی طالبؓ نے جنگ میں قتل کیا۔ یہ واقعہ خیبر کی جنگ کا ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔


---

معاہدے اور شرائط


مسلمانوں کی فتح کے بعد خیبر کے لیے یہ شرائط طے ہوئیں:

یہودی قبائل کی دولت مسلمانوں کے قبضے میں آئی۔

ہر غیر مسلم پر جزیہ عائد کیا گیا، بدلے میں انہیں جنگی تحفظ فراہم کیا گیا۔

یہودیوں کو ہجرت کرنے یا خیبر میں رہنے کا اختیار دیا گیا۔

مسلمانوں نے مقامی قبائل کے خلاف مزید مہم روکنے پر اتفاق کیا۔



---

جانی نقصان


مسلمانوں کی تعداد: تقریباً 1400

یہودیوں کی تعداد: 10,000 سے 20,000

اموات:

93 یہودی

18 مسلمان


زخمی: تقریباً 50 دونوں جانب



---

جدید دور میں خیبر کا حوالہ


20ویں صدی کے آخر سے، غزوہ خیبر کا حوالہ عرب دنیا میں ایک نعرے "خیبر، خیبر یا یہود" کی صورت میں دیا جاتا ہے، جو عرب-اسرائیل تنازعے کے تناظر میں استعمال ہوتا ہے۔


---

❓ FAQs – عام سوالات


سوال 1: غزوہ خیبر کب ہوا؟

جواب: یہ جنگ 628 عیسوی (7 ہجری) میں لڑی گئی۔

سوال 2: خیبر کہاں واقع ہے؟

جواب: مدینہ منورہ سے تقریباً 150 کلومیٹر شمال مغرب میں۔

سوال 3: مرحب بن الحارث کو کس نے قتل کیا؟

جواب: حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے۔

سوال 4: مسلمانوں اور یہودیوں کی تعداد کتنی تھی؟

جواب: 1400 مسلمان اور تقریباً 10 سے 20 ہزار یہودی۔

سوال 5: اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلا؟

جواب: خیبر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور جزیہ کا نظام نافذ ہوا۔

اہم مضامین 


غزوہ خیبر


خیبر کی جنگ

خیبر 628 عیسوی

مرحب بن الحارث

حضرت علی اور خیبر

یہودی قبائل خیبر

اسلام کی فتوحات

مسلمانوں کی فوجی طاقت

جزیہ کا نظام اسلام

ابتدائی اسلامی جنگیں

امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...