Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

اتوار، 30 اکتوبر، 2022

وہ دس اصحاب رضی اللہ تعالی عنہ جنھیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے

عشرہ مبشرہ وہ دس صحابہ کرام ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی۔ اس بلاگ میں عشرہ مبشرہ کے نام، ان کی عظمت اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔





مرکزی پس منظر 


 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس صحابہ کرام کو دنیا  میں ہی جنت کی بشارت دی تھی  یہ وہ صحابہ کرام ہیں جنھوں نے اپنی ساری زندگی  اسلام کی راہ میں وقف کر دی بہت  سے ظلم و ستم برداشت کیے لیکن حق کا راستہ نہ چھوڑا اور ہروقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان نثار کرنے کو تیار رہتے ان صحابہ کرام کو عشرہ مبشرہ بھی کہا جاتا ہے ان میں چاروں خلفہ راشدیں اور باقی چھ صحابہ کرام اور بھی ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں 

1۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ 

2۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ 

3۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ 

4۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ 

5 حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ 

6۔ حضرت طلحہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ 

7۔حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ 

8 حضرت ابو عبید رضی اللہ تعالیٰ تعالی عنہ 

9 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ 

10 حضرت سعد بن زید رضی اللہ تعالی عنہ 

عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

تعارف


اسلام کی تاریخ میں صحابہ کرام کا کردار نہایت عظیم اور نمایاں ہے۔ ان میں سے وہ دس صحابہ کرام جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی، انہیں "عشرہ مبشرہ" کہا جاتا ہے۔ یہ عظیم المرتبت ہستیاں نبی کریم ﷺ کے جاں نثار ساتھی تھے، جنہوں نے دین اسلام کی خدمت، قربانی اور ایمان کی پختگی میں اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔


---

عشرہ مبشرہ کون ہیں؟


عشرہ مبشرہ وہ دس خوش نصیب صحابہ کرام ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے جنت کی خوشخبری سنائی۔ یہ وہ عظیم المرتبت لوگ ہیں جن کی زندگیاں ایمان، تقویٰ، جہاد اور قربانی سے عبارت تھیں۔


---

عشرہ مبشرہ صحابہ کے نام


1. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ


2. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ


3. حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ


4. حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ


5. حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ


6. حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ


7. حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ


8. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ


9. حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ


10. حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ




---

عشرہ مبشرہ کی عظمت


یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا ساتھ ہر مشکل وقت میں دیا۔ غزوات میں شرکت کی، دین کی خدمت میں اپنی جان و مال قربان کی، اور اپنی عملی زندگی سے امت کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ ان کے نام قیامت تک ایمان والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔


---

عشرہ مبشرہ سے سیکھنے کے اسباق


ایمان میں پختگی اور اللہ پر توکل

دین کے لیے قربانی دینے کا جذبہ

دنیا کی محبت سے بے نیازی

عدل، صدق اور وفاداری کی اعلیٰ مثالیں



---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: عشرہ مبشرہ کو جنت کی بشارت کب دی گئی؟

جواب: نبی کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر ان صحابہ کرام کو جنت کی بشارت سنائی، جنہیں امت میں "عشرہ مبشرہ" کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔

سوال 2: عشرہ مبشرہ کی پہچان کیا ہے؟

جواب: یہ وہ دس صحابہ کرام ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنتی قرار دیا۔

سوال 3: عشرہ مبشرہ سے ہمیں کیا سیکھنا چاہیے؟

جواب: ایمان کی پختگی، دین کے لیے قربانی، عدل و انصاف اور اللہ کے دین کی نصرت ان کی نمایاں صفات ہیں۔


عشرہ مبشرہ

عشرہ مبشرہ کے نام

عشرہ مبشرہ کون ہیں

عشرہ مبشرہ صحابہ

عشرہ مبشرہ کی فضیلت

منگل، 25 اکتوبر، 2022

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا تفصیلی جائزہ 


 حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ میں عام الفیل کے واقعہ کے چھ سال بعد پیدا ہونے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ کا نام اروی اور والد کا نام عفان تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنو امیہ سے تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نسب پانچویں پشت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی نانی ام حکیم بنت عبد المطلب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے بچپن میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ جوان ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تجارت شروع کی اس میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ایمانداری اور دیانتداری سے اتنی ترقی کی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار مکہ مکرمہ کے امیر اور معزز لوگوں میں ہوتا تھا  آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ گہری دوستی تھی جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا  قبول اسلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا اسلام کے بہت خلاف تھے اسلام قبول کرنے  کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر بہت ظلم کیا وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ رسیوں سے باندھ کر مارتا تھا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام مظالم کا بڑی ہمت واستقامت سے برداشت کیا ہجرت حبشہ کے وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہجرت کرگئے کچھ عرصہ بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے اور بعد میں مکہ مکرمہ میں ہجرت کی سن 2ہجری میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہو گیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہ کا نکاح آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دیا اور اسی بنا پر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو ذوالنوریں کا لقب ملا جس کے معنی ہیں دو نوروں والا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شخصیت میں دو خوبیاں نمایاں تھیں ایک خوبی شرم وحیا تھی اور دوسری سخاوت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کی راہ پر اپنا مال و دولت وقف کر دیا تھا مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کا ایک ایک کنواں تھا یہ کنواں ایک یہودی کی ملکیت تھا  وہ مسلمانوں کو اس کنویں سے پانی نہیں لینے دیتا تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے غذوہ بدر کے علاوہ تمام غزات میں شرکت کی تھی غذوہ بدر کے موقع پر حکم نبوی کے پیش نظر اپنی بیمار  زوجہ کی تیماداری میں مصروف تھے غذوہ تبوک کےموقع پر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار نقد پیش کئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو جامع القران بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں قرآن مجید کی تدوین اور اشاعت کا خصوصی اہتمام کیا گیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ترتیب دیا ہوا قرآن مجید منگوا کر اس کی  نکلیں تیار کرکے اسلامی سلطنت کے گورنر کو بھجوادیں اس کی ایک نقل مدینہ میں رکھی اور ساری امت کوایک ہی قرات پر اکٹھا کیا اپنے دورے خلافت میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد حرام اور مسجدنبوی کی توسیع کی آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے ذمانے میں شام کے گورنر  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے اسلامی بحری بیڑے کی بنیاد رکھی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں ہی اسلامی ریاست کی سر حدیں تیونس، طرابلس،الجزائر، سپین اور ایران تک پھیل گئ تھیں 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت 12سال کاہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو 35 ہجری میں ایک سازش کے ذریعے شہید کردیا گیا شہادت کے وقت آپ ر ضی  اللہ تعالی عنہ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر 82سال تھی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو جنت ابقیع میں دفن کیا گیا 


حضرت عثمان غنیؓ: حیاء و سخاوت کی عظیم مثال


تعارف


حضرت عثمان غنیؓ اسلام کے تیسرے خلیفہ اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ آپ کو ذوالنورین کا لقب ملا کیونکہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے سے نکاح کیا۔


---

ابتدائی زندگی اور اسلام قبول کرنا


حضرت عثمانؓ قریش کے معزز خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نرم دل، بردبار اور تجارت میں کامیاب شخصیت تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر اسلام قبول کیا اور ابتدائی مسلمانوں میں شامل ہوئے۔


---

رسول اللہ ﷺ کے قریب ہونا


رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کی حیاء کی تعریف کی اور فرمایا:
"فرشتے بھی عثمان سے حیاء کرتے ہیں۔"

آپ نے رسول اللہ ﷺ کی دو بیٹیوں سے نکاح کیا، اس لیے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے۔



---

سخاوت اور قربانیاں


حضرت عثمانؓ اپنی سخاوت کے باعث مشہور تھے۔

غزوہ تبوک میں ہزاروں اونٹ اور کثیر مال اللہ کی راہ میں دیا۔

مدینہ کے مسلمانوں کے لیے رومہ کا کنواں خرید کر وقف کیا۔

مسجد نبوی کی توسیع کے لیے زمین عطیہ کی۔



---

خلافتِ عثمانی


حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ آپ کی خلافت تقریباً 12 سال رہی۔
اہم کارنامے:

قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کروایا اور تمام اسلامی علاقوں میں نسخے بھیجے۔

اسلامی ریاست کو مزید وسعت دی، شمالی افریقہ، آرمینیا اور خراسان تک فتوحات ہوئیں۔

بیت المال کو منظم کیا اور مسلمانوں کی فلاح کے کام کیے۔



---

شہادت


حضرت عثمانؓ پر بعض فتنہ پرست گروہوں نے اعتراضات کیے اور مدینہ میں بغاوت برپا کی۔ آپ نے خون بہانے سے گریز کیا اور فرمایا:
"میں خون بہا کر امتِ محمدیہ کو تقسیم نہیں کرنا چاہتا۔"
24 ذوالحجہ 35 ہجری کو قرآن کریم کی تلاوت کے دوران شہید کر دیے گئے۔


---

حضرت عثمانؓ سے حاصل ہونے والے اسباق

سخاوت اور ایثار کا جذبہ

صبر اور برداشت

دین کے لیے قربانی دینا

حیاء اور پاکیزگی کو اختیار کرنا



---

❓FAQs


سوال: حضرت عثمانؓ کو ذوالنورین کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب: کیونکہ آپ نے نبی ﷺ کی دو بیٹیوں سے نکاح کیا۔

سوال: حضرت عثمانؓ کی خلافت کتنے سال رہی؟

جواب: تقریباً 12 سال۔

سوال: حضرت عثمانؓ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟

جواب: قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنا اور اس کی حفاظت کو یقینی بنانا۔


---

✨ حضرت عثمان غنیؓ کی زندگی ہمیں سخاوت، حیاء اور صبر کا درس دیتی ہے۔

بدھ، 19 اکتوبر، 2022

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ

 




حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کا ایک تفصیلی جائزہ 

 حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسلامی خلافت کے چوتھے خلیفہ تھے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت 656عیسوی سے 661 تک تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کا نام ابو طالب  اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو ہاشم سے تھا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت سے 23 سال قبل 13 رجب کو مکہ میں پیدا ہوئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے دس برس کی عمر میں اسلام قبول کیا  جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر 10سال تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا آغاز اپنے قریبی رشتے داروں اور خاندان سے کیا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کا آغاز کیا تو مکہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوگئے لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا جنھوں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لڑی جانےوالی تمام جنگوں میں اپنی بےمثال شجاعت کےعظیم وشاں کارنامے انجام دیے  یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  کی شجاعت کا اعتراف تھا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اسد اللہ  کا لقب عطا کیا گیا  جس کے معنی ہیں اللہ کا شیر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کی راہ میں  ایسی عظیم قربانیاں دیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی 

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا  کا نکاح آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا اللہ تعالی  نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو دو بیٹے  حضرت امام حسین علیہ  السلام اور حضرت حسن  علیہ السلام  اور ایک بیٹی حضرت زینب عطا کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے وسیع علم اور عقلمندی  کو بہت  سراہا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد  فرمایا  میں  علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے  حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کے چوتھے خلیفہ ہونے کی ذمہ داری سنبھالی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نظام حکومت کو اسلامی اصولوں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی روشنی میں  چلایا  آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت سے پہلے ہی امت مسلمہ مختلف فرقوں میں بٹ چکی تھی اس دیرینہ مسلئے کو حل کرنے کی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی کوشش کی لیکن صورتحال بگڑتی گئ اور لوگوں ایک بڑی تعداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمن بن گئ 40 ہجری میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دشمن نے آپ پر اس وقت وار کیا جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ نماز پڑھ رہے تھے  اس سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ شدید زخمی ہو گئے اور کچھ دنوں بعد  زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا نام آج بھی بڑے ادب واحترام سے لیا جاتا ہے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی مثالی شخصیت سے ایک کامیاب انسان  بننے کی کوشش کرتے ہیں 

---


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ – اسلام کے چوتھے خلیفہ


تعارف


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے عظیم رہنما، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی، اور خلافتِ راشدہ کے چوتھے خلیفہ تھے۔ آپ کی شخصیت شجاعت، علم، عدل اور تقویٰ کی روشن مثال ہے۔



---


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش اور ابتدائی زندگی


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت سے 23 سال قبل 13 رجب کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔


آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو ہاشم سے تھا۔


والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا۔


آپ بچپن ہی سے رسول اللہ ﷺ کے قریب تھے اور دس برس کی عمر میں اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ہوئے۔




---


اسلام کی راہ میں قربانیاں


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں لڑی جانے والی ہر جنگ میں بھرپور حصہ لیا۔


جنگ بدر، احد، خیبر اور دیگر غزوات میں آپ کی شجاعت بے مثال رہی۔


آپ کو "اسد اللہ" یعنی "اللہ کا شیر" کا لقب عطا کیا گیا۔




---


حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح


نبی کریم ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا۔


اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹے، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام، اور ایک بیٹی حضرت زینب عطا کی۔




---


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا علم و حکمت


نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔"


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی دانشمندی اور فہم و فراست نے اسلامی تاریخ میں گہرا اثر چھوڑا۔




---


خلافتِ علی رضی اللہ تعالی عنہ


حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد 656 عیسوی میں آپ چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے۔


آپ نے حکومت کو قرآن و سنت کے مطابق چلانے کی کوشش کی۔


اس دور میں امت مسلمہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئی تھی، لیکن آپ نے اتحاد کے لیے بڑی جدوجہد کی۔




---


شہادت


40 ہجری میں ایک دشمن نے فجر کی نماز کے دوران آپ پر حملہ کیا۔


آپ شدید زخمی ہوئے اور چند دن بعد شہادت کا رتبہ پایا۔


آپ کی زندگی اور قربانیاں آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔




---


سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: آپ 13 رجب کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔


سوال 2: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کب قبول کیا؟

جواب: آپ نے دس برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔


سوال 3: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو "اسد اللہ" کا لقب کیوں دیا گیا؟

جواب: آپ کی بے مثال شجاعت اور جنگوں میں کارناموں کی وجہ سے آپ کو "اللہ کا شیر" کہا گیا۔


سوال 4: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا دور کب تھا؟

جواب: آپ کا دورِ خلافت 656 سے 661 عیسوی تک رہا۔


سوال 5: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کیسے ہوئی؟


جواب: آپ پر فجر کی نماز کے دوران حملہ کیا گیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ شہید ہو گئے۔



---حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، اسلام کے چوتھے خلیفہ، اسد اللہ، خلافتِ راشدہ، اہل بیت، امام حسن، امام حسین، حضرت فاطمہ، حضرت علی کی شہادت، حضرت علی کی شجاعت


پیر، 17 اکتوبر، 2022

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ

 
 

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا تعارف اور اسلام کی قبولیت کا واقعہ


حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کا خطاب تھاحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کاشمارمکہ مکرمہ کے بہادر لوگوں میں ہوتا تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ گھڑ سواری  
نیزہ  باری  اور پہلوانی میں ماہر تھے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کپڑے کے تاجر تھے آپ رضی اللہ تعالی عنہ ان دس صحابہ کرام میں شامل ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی جرات اور بہادری کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے مسلمان ہونے کی دعا مانگی اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ شروع میں اسلام کے سخت خلاف تھے قبول اسلام سے پہلے لوگوں کو مسلمان ہوتا دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو  بہت  غصہ آتا ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعودبااللہ ) قتل کرنے کی نیت سے گھر سے نکلے راستے  میں  ایک  شخص نے پوچھا  عمر کہا جا  رہے ہو ؟حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ  نے کہا  میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ( نعوذباللہ) قتل کرنے جارہا ہوں  اس شخص نے کہا پہلے  اپنے  گھر کی خبر لو تمھارے بہن اور بہنوئی  اسلام قبول کر چکے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر غصے کی حالت میں اپنی بہن کے گھر چلے گئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ آپ کی بہن اور بہنوئی قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھ کر انہوں نے قرآن مجید چھپا لیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بہنوئی کو مارنا شروع کر دیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن آپ کو  بچانے کے لیے آئیں تو زخمی ہو گیں تبآپکی بہن نے کہا آپ ہمیں جان سے بھی  مار دیں تو بھی ہم اسلام نہیں  چھوڑیں گے آخر تھک کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بہن کو کہا مجھے وہ چیز دکھاؤں جو تم پڑھ رہے تھے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن نے کہا یہ اللہ تعالی کا کلام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اسے ہاتھ لگانے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ غسل کر لیں تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نے پہلے غسل کیا آور جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن مجید کی کچھ آیات پڑھیں تو آپ کے دل کی حالت ہی بدل گئی آپ رضی اللہ تعالی عنہ وہاں سے سیدھا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اسلام قبول کیا 


 حضرت عمر فاروقؓ: عدل و انصاف کی بے مثال شخصیت


تعارف


حضرت عمر فاروقؓ اسلام کے دوسرے خلیفہ، عشرہ مبشرہ میں شامل اور رسول اللہ ﷺ کے عظیم رفیق تھے۔ آپ کو عدل و انصاف، زہد و تقویٰ اور غیر معمولی حکمرانی کی صلاحیتوں کے باعث دنیا میں ایک مثالی رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔


---

نسب اور ابتدائی زندگی


حضرت عمرؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ عدی سے تھا۔ آپؓ کا لقب فاروق تھا، جس کا مطلب ہے "حق و باطل میں فرق کرنے والا"۔ قبولِ اسلام سے پہلے آپ اپنی قوت، بہادری اور زبان کی فصاحت کے لیے مشہور تھے۔


---

قبولِ اسلام


حضرت عمرؓ نے اسلام اس وقت قبول کیا جب مسلمان شدید مشکلات میں تھے۔ قرآن کی تلاوت نے ان کے دل کو بدل دیا۔ حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے اور اسلام کو طاقت ملی۔


---

مدنی دور اور خدمات

ہجرت کے بعد حضرت عمرؓ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے۔ غزوات میں شریک ہوئے اور ہر موقع پر بہادری کا مظاہرہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
"شیطان عمر کو دیکھ کر راستہ بدل لیتا ہے۔"


---

خلافتِ فاروقی کی خصوصیات


حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد خلیفہ مقرر کیا گیا۔ ان کی خلافت میں اسلام کا دائرہ ایران، شام، مصر اور عراق تک پھیل گیا۔

اہم خصوصیات:


عدل و انصاف کا مثالی نظام


بیت المال کی تنظیم


پولیس، ڈاک اور قاضی کا نظام


نئے شہر اور صوبوں کا قیام




---

نظامِ عدل


حضرت عمرؓ کا عدل مشہور ہے۔ ایک مرتبہ ایک قبطی نے ان کے گورنر کے بیٹے کے خلاف شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے قبطی کو حق دلایا اور فرمایا:
"تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟"


---

شہادت


24 ہجری میں ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے مسجد میں نماز کے دوران حملہ کیا۔ چند دن کے بعد آپ شہید ہو گئے۔ آپ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں نبی ﷺ کے روضہ مبارک میں دفن کیا گیا۔


---

حضرت عمرؓ سے حاصل ہونے والے اسباق


عدل و انصاف قائم رکھنا

حکمرانی میں مساوات

دنیاوی عیش سے بے نیازی

خدمتِ خلق کو ترجیح دینا



---

❓FAQs

سوال: حضرت عمرؓ کو فاروق کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب: آپ کو یہ لقب اس لیے دیا گیا کہ آپ حق اور باطل میں واضح فرق کرتے تھے۔

سوال: حضرت عمرؓ کی خلافت کتنے سال رہی؟

جواب: آپ کی خلافت تقریباً 10 سال (13 ہجری تا 23 ہجری) رہی۔

سوال: حضرت عمرؓ کی سب سے بڑی خوبی کیا تھی؟

جواب: عدل و انصاف، شجاعت اور اسلامی حکومت کے مضبوط نظام کی بنیاد ڈالنا۔


---

✨ حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی آج بھی حکمرانوں اور عوام کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

 



حضرت ابوبکر صدیقؓ کی جامع سیرت: اوائلِ اسلام کی قربانیاں، ہجرت، خلافتِ راشدہ، جمعِ قرآن، جنگِ ردّہ، طرزِ حکمرانی اور FAQs—
ایک تفصیلی پروفیشنل بلاگ۔



حضرت ابوبکر صدیقؓ — ایمان، صدق اور قیادت کی درخشاں مثال


حضرت ابوبکر صدیقؓ، عشرۂ مبشرہ کے سرخیل اور اسلام کے پہلے خلیفہ۔ اوائلِ اسلام کی جدوجہد، ہجرتِ مدینہ، خلافتِ راشدہ کے کارنامے، جمعِ قرآن، مرتدین کے خلاف جہاد، 


---

تعارفی جھلک


حضرت ابوبکر صدیقؓ (اصل نام: عبداللہ بن عثمان، کنیت: ابو بکر) رسولِ اکرم ﷺ کے سب سے قریبی رفیق، اولین خلیفہ اور عشرۂ مبشرہ میں سرفہرست ہیں۔ "صدّیق" اس لیے کہ واقعۂ معراج سمیت نبی ﷺ کی ہر خبر کی فوراً تصدیق فرمائی۔ آپؓ کے ایمان، قربانی، تدبّر اور قیادت نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔


---

نسب، مزاج اور ابتدائی زندگی


نسب: قبیلۂ قریش، بنو تیم۔


مزاج: نرم خو، بردبار، اعلیٰ تاجر، امین و کریم۔

علم و فہم: جاہلیت میں بھی نسب دانی اور سماجی معاملہ فہمی میں مانے جاتے تھے۔



---

قبولِ اسلام اور دعوتی خدمات


سبقتِ ایمان: اوّلین مردِ ایمان میں شمار؛ آپؓ کے ذریعے عثمانؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، سعدؓ، عبدالرحمٰنؓ جیسے بڑے صحابہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔

جان و مال کی قربانیاں: کمزور غلاموں کی آزادی (مثلاً حضرت بلالؓ)، مسلسل مالی اعانت، اور ہر مرحلے پر نبی ﷺ کی پشت پناہی۔

لقبِ صدّیق: واقعۂ معراج پر بلا تردد تصدیق—اسی سے لقب دوام پا گیا۔



---

مکہ میں استقامت اور ہجرت کا سفر


آزمائشیں:


 شعائرِ اسلام کی علانیہ تلاوت پر مظالم سہے؛ مگر ثابت قدم رہے۔

غارِ ثور: ہجرتِ مدینہ میں نبی ﷺ کے ہم سفر؛ تین دن غار میں قیام، حفاظت و خدمت کی عدیم المثال مثالیں۔

مدینہ پہنچ کر: مواخات، مسجد نبویؐ کی تعمیر میں حصہ، ہر محاذ پر رسول اللہ ﷺ کے دست راست۔



---

غزوات و سفارت


غزوات میں شرکت: بدر، احد، خندق سمیت بڑے معرکوں میں کمال استقامت۔

سفارتی ذمہ داریاں: 9 ہجری میں امیرالحج مقرر ہوئے؛ سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کی منادی بعد ازاں سیّدنا علیؓ نے کی۔

غزوۂ تبوک: اپنا سارا گھرانہ اللہ کی راہ میں پیش کر دیا—ایثار کی انتہا۔



---

انتخابِ خلافت اور فوری چیلنجز


رسول اللہ ﷺ کے وصال (11ھ) پر سقیفہ بنی ساعدہ میں مشاورت کے بعد حضرت ابوبکرؓ متفقہ طور پر خلیفہ چنے گئے۔ بڑے چیلنجز سامنے تھے:

1. ردّہ (ارتداد) کی لہریں اور جھوٹے مدعیانِ نبوت۔


2. زکوٰۃ سے انکار کرنے والے قبائل۔


3. مرکزیتِ مدینہ کو درپیش سیاسی خطرات۔



فیصلہ کن اقدامات


مرتدین کے خلاف جہاد: مسیلمہ کذّاب و دیگر فتنوں کا خاتمہ؛ اسلامی مرکز محفوظ ہوا۔

زکوٰۃ کی فرضیت پر قائم رہنا: اصولِ دین پر کسی مداہنت کو قبول نہ کیا؛ ریاستی نظم مضبوط ہوا۔

عباسی لشکر (اسامہؓ بن زید): نبی ﷺ کے حکم کی تکمیل—شجاعت و وفاداری کی روشن مثال۔



---

جمعِ قرآن — عہدِ صدیقی کا سنگِ میل


یَمَامہ کی جنگوں میں قُرّاء صحابہ کی بڑی تعداد کی شہادت کے بعد حضرت عمرؓ کی تجویز پر حضرت ابو بکرؓ نے قرآنِ کریم کو سرکاری طور پر جمع کرانے کا تاریخی فیصلہ کیا۔

انچارج: حضرت زید بن ثابتؓ۔


طریقہ: مکتوبِ وحی، حفظ کی شہادتیں، دوہری گواہی—انتہائی محتاط معیار۔

نتیجہ: ایک جامع مصحف تیار ہوا جو حضرت ابوبکرؓ → حضرت عمرؓ → حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ رہا؛ بعد میں حضرت عثمانؓ نے اسی مصحف کی نقلیں عالمِ اسلام میں رائج فرمائیں۔



---

نظامِ حکومت اور طرزِ قیادت


ساده طرزِ زندگی: بیت المال سے معمولی وظیفہ؛ ذاتی بکریاں خود دوہنا—حاکم وقت کی بے نفسی۔

عدل و شفافیت: تقرّریاں اہلیت پر؛ احتساب سخت مگر منصفانہ۔

نظمِ عسکری: سرحدی محاذوں پر منظم پیش قدمی—بنیادیں جو عہدِ فاروقی میں ثمر لائیں۔

خطبۂ خلافت: “میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالاں کہ تم میں بہترین نہیں؛ اگر سیدھا رہوں تو میرا ساتھ دینا، ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے درست کرنا”—جمہوری اخلاقیات کی معراج۔



---

اہلِ خانہ


اہلِ بیت: اُمّ رُومانؓ (امّ المؤمنین عائشہؓ کی والدہ)، اسماء بنتِ عُمَیسؓ، حبیبہ بنتِ خارجہؓ وغیرہ۔

اولاد: امّ المؤمنین عائشہؓ، اسماءؓ، عبدالرحمٰنؓ، عبداللہؓ، محمدؓ (اسماء بنتِ عمیسؓ سے) وغیرہ—جنہوں نے دین کی عظیم خدمات انجام دیں۔



---

وصال اور امانت داری کی علامتیں


وفات: جمادی الآخر 13ھ؛ عمرِ خلافت قرابتاً ڈھائی سال۔

مدفن: حضور ﷺ کے پہلو میں—مسجدِ نبویؐ۔

ذاتی ترکہ: انتہائی مختصر؛ وفات سے پہلے بیت المال کی امانتیں واپس—حاکم کی دیانت کی لازوال مثال۔



---

سیرتِ صدیقؓ سے حاصل ہونے والے بڑے اسباق


صدق و یقین: حق کی تصدیق میں تاخیر نہ کرنا۔

ثبات و قربانی: دین کے لیے جان و مال کی پیشکش۔

اصول پسندی: زکوٰۃ و ارکانِ دین پر غیر متزلزل firmness۔

ادارہ سازی: مرکز، خزانہ، فوج، قضا—سب کی بنیادیں مضبوط۔

قیادت کی اخلاقیات: تواضع، مشاورت، شفافیت اور جواب دہی۔



---

ٹائم لائن (مختصر)


قبلِ بعثت: مکہ میں معزّز تاجر، امین و فہیم۔

اوائلِ نبوت: سبقتِ ایمان، دعوت و کفالتِ کمزور۔

1–10ھ: تمام بڑے مرحلوں میں نبی ﷺ کے دستِ راست۔

11ھ: انتخابِ خلافت، ردّہ کی سرکوبی، جمعِ قرآن۔

13ھ: وفاتِ مبارک، مسجدِ نبویؐ میں تدفین۔



---

سوالات و جوابات (FAQ)


س1: حضرت ابوبکرؓ کو “صدّیق” کیوں کہا جاتا ہے؟

ج: رسول اللہ ﷺ کی خبروں—خصوصاً معراج—کی فوراً اور مکمل تصدیق کرنے پر آپؓ کو “صدّیق” کہا گیا۔

س2: خلافتِ صدیقی کے تین بڑے کارنامے کون سے ہیں؟

ج: (1) مرتدین و مدعیانِ نبوت کی سرکوبی، (2) زکوٰۃ کے نظام کو قائم رکھنا، (3) قرآنِ کریم کی سرکاری سطح پر جمع و تدوین۔

س3: غارِ ثور کا مرکزی سبق کیا ہے؟

ج: توکل، تدبیر اور وفاداری—اسباب بھی اختیار کرو اور دل اللہ پر رکھو۔

س4: کیا قرآن ایک مصحف کی صورت میں ابو بکرؓ کے دور میں مرتب ہوا؟

ج: جی ہاں، جنگِ یمامہ کے بعد شہادۃ القرّاء کے پیشِ نظر حضرت ابو بکرؓ نے زید بن ثابتؓ کی سربراہی میں جمعِ قرآن کروایا؛ یہی مصحف بعد میں عہدِ عثمانی میں معیار بنا۔

س5: حضرت ابوبکرؓ کا طرزِ حکمرانی کیسا تھا؟

ج: حد درجہ سادہ، شفاف، مشاورتی اور قانون پر مبنی—حکمران بھی شریعت کے تابع۔


---

اختتامی کلمات


حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زندگی ایمانِ خالص، اخلاقِ عالیہ، اصول پرستی اور ادارہ سازی کا جامع نمونہ ہے۔ اگر قیادتیں اور عوام دونوں صداقت و شفافیت کو اپنالیں تو معاشرے عدل و امن سے بھر سکتے ہیں۔


---
حضرت ابوبکر صدیقؓ، سیرتِ ابوبکر، عشرہ مبشرہ، خلافتِ راشدہ، جمعِ قرآن، غارِ ثور، جنگِ ردّہ، امیرالحج، غزوہ تبوک

اتوار، 16 اکتوبر، 2022

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ 



حضرت محمد ﷺ کی سیرت مبارکہ ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اس بلاگ میں آپ ﷺ کی ولادت، بچپن، اعلان نبوت، ہجرت، غزوات، اخلاق اور خطبہ حجۃ الوداع کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔


--- 

  


تعارف


حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں، جنہیں انسانیت کی ہدایت اور نجات کے لیے مبعوث کیا گیا۔ آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ سراسر اخلاق، عدل، محبت، صبر اور تقویٰ کا پیکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ ﷺ کو رحمت للعالمین قرار دیا۔ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ قیامت تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔


---

ولادت باسعادت


آپ ﷺ کی ولادت 12 ربیع الاول عام الفیل (570 عیسوی) میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ کی وفات ولادت سے پہلے اور والدہ حضرت آمنہ کی وفات آپ ﷺ کے بچپن میں ہی ہو گئی۔ پرورش پہلے دادا عبدالمطلب اور بعد میں چچا ابو طالب نے کی۔


---

بچپن اور جوانی


بچپن ہی سے آپ ﷺ کی شخصیت دیانت، سچائی اور اعلیٰ اخلاق کی مظہر تھی۔ آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ نہ بولا اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا۔ اسی وجہ سے لوگ آپ ﷺ کو الصادق اور الامین کہا کرتے تھے۔ جوانی میں آپ ﷺ نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور اپنی سچائی و ایمانداری سے سب کا دل جیت لیا۔


---

اعلانِ نبوت


40 برس کی عمر میں، غارِ حرا میں عبادت کے دوران پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ کو نبوت عطا ہوئی۔ پہلی وحی کے الفاظ تھے:
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (سورۃ العلق: 1)

یہ اعلان تھا کہ انسانیت کو علم اور ہدایت کے نور کی طرف بلایا جا رہا ہے۔


---

دعوتِ اسلام


ابتدا میں آپ ﷺ نے اسلام کی دعوت خفیہ طور پر دی۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شامل تھے۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے کھلے عام دعوت دینا شروع کی جس پر قریش کے سردار مخالفت پر اتر آئے۔


---

مکی دور کی آزمائشیں


مکہ میں مسلمانوں کو شدید ظلم و ستم سہنا پڑا۔ شعبِ ابی طالب کا محاصرہ، مسلمانوں پر تشدد، اور بائیکاٹ جیسے واقعات پیش آئے۔ لیکن آپ ﷺ نے صبر و استقامت سے دین کی دعوت جاری رکھی۔


---

ہجرتِ مدینہ


کفارِ مکہ کی زیادتیوں اور دشمنی کے باعث اللہ کے حکم سے آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم موڑ ہے۔ مدینہ میں آپ ﷺ نے مسجد نبوی تعمیر کی اور اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔


---

مدنی دور کی کامیابیاں


مدینہ میں آپ ﷺ نے عدل و انصاف پر مبنی ایک فلاحی ریاست قائم کی۔ آپ ﷺ نے یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر قبائل کے ساتھ معاہدے کیے اور مذہبی آزادی کو یقینی بنایا۔

اہم غزوات


غزوہ بدر (2 ہجری): مسلمانوں نے کم تعداد میں ہونے کے باوجود کفار کو شکست دی۔

غزوہ احد (3 ہجری): مسلمانوں کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ ﷺ نے صبر و حکمت سے امت کو سنبھالا۔

غزوہ خندق (5 ہجری): کفار مکہ اور اتحادیوں کو شکست ہوئی۔

فتح مکہ (8 ہجری): مسلمانوں نے مکہ فتح کیا، اور آپ ﷺ نے سب کو معاف کر کے عظیم کردار کا مظاہرہ کیا۔



---

آپ ﷺ کا اخلاق و کردار


اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ ﷺ کے اخلاق کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (سورۃ القلم: 4)

آپ ﷺ نرم دل، بردبار، عاجزی اختیار کرنے والے، انصاف کرنے والے اور رحم دل تھے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا اور یتیموں و مسکینوں کی کفالت کی۔


---

آخری حج اور خطبہ حجۃ الوداع


10 ہجری میں آپ ﷺ نے آخری حج ادا کیا اور خطبہ حجۃ الوداع دیا، جس میں انسانیت کے بنیادی اصول بیان کیے:

خون اور مال کی حرمت

خواتین کے حقوق

مساوات اور اخوت

قرآن اور سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی ہدایت



---

وصال مبارک


11 ہجری میں آپ ﷺ بیمار ہوئے اور 12 ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ آپ ﷺ کو مسجد نبوی کے حجرہ مبارکہ میں دفن کیا گیا۔


---

سوالات اور جوابات


سوال 1: حضرت محمد ﷺ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: آپ ﷺ 12 ربیع الاول عام الفیل میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔

سوال 2: آپ ﷺ کو صادق و امین کیوں کہا جاتا تھا؟

جواب: آپ ﷺ نے ہمیشہ سچ بولا، امانت ادا کی اور لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئے۔

سوال 3: آپ ﷺ کی ہجرت کیوں ضروری ہوئی؟

جواب: کفار مکہ کے ظلم اور مخالفت کے باعث اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کی گئی۔

سوال 4: خطبہ حجۃ الوداع کی اہم تعلیمات کیا تھیں؟

جواب: مساوات، خواتین کے حقوق، جان و مال کی حرمت اور قرآن و سنت پر عمل کی تاکید۔

سوال 5: آپ ﷺ کا اخلاق کیسا تھا؟

جواب: آپ ﷺ نرم دل، صادق، بردبار اور بہترین اخلاق والے 
تھے۔

حضرت محمد ﷺ کی سیرت، نبی کریم ﷺ کی حیات، رسول اکرم ﷺ کی زندگی، سیرت النبی ﷺ، خطبہ حجۃ الوداع، اسلام کی تاریخ، فتح مکہ، ہجرت مدینہ۔


ہفتہ، 15 اکتوبر، 2022

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا واقعہ

 

حضرت محمد کی ولادت باسعادت 

حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ یہ بلاگ آپ ﷺ کی ولادت، خاندان، بچپن اور ولادت کی برکتوں کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کرتا ہے۔

  

  

تفصیلی جائزہ 

 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے عرب مختلف قبائل میں تقسیم ہو چکا تھا نفسا نفسی اور  شرک   عام تھا لوگوں نے  مختلف  خدا بنا رکھے تھے کوئی آگ کی عبادت کرتا تو کوئی چاند ستاروں کی اور کوئی بتوں کو اپنا خدا سمجھتا یہاں تک کہ خانہ کعبہ میں بھی اس وقت 360 بت موجودتھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ کی ولادت کے وقت کئ معجزات ظاہر ہوے  چونکہ عرب میں اس وقت قحط سالی تھی لیکن  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور قحط سالی بھی ختم ہو گئ  تیز ہواوں کے سلسلے شروع ہو گئی یہاں تک کہ خانہ کعبہ میں موجود تمام بت گرگے  

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 12ربیع اول571 ہجری  پیر کے دن  صبح صادق کے وقت  عرب کے مشہور شہر  مکہ مکرمہ میں ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق مکہ مکرمہ کے مشہورخاندان قریش کی شاخ بنو ہاشم سے تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا نام حضرت عبداللہ علیہ السلام ہے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا نام حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہ ہے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد آپ کی ولادت سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نانا کا نام وہب اور دادا کا نام حضرت عبدالمطلب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام احمد رکھا جس کے معنی اللہ تعالی کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا دادا حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا محمد کے معنی جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئ ہو 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہ فرمائے ہیں  کہ میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہوگئے عربوں میں اس وقت یہ رواج تھا کہ کم عمری میں ہی بچوں کو دیہات میں ھیج دیا جاتاتاکہ وہ کھلی فضا اور صاف ماحول  میں  پرورش پائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے دادا نے دائ کا انتظام کرنے کوشش میں لگے  بہت سی دایاں آپ کے لیے آئیں لیکن  جب ان ھیں پتا چلتا کہ بچہ یتیم ہے تو باہر سے ہی  چلی جاتی تھیں حضرت حلیمہ سعدیہ مالی  اعتبار سے    کمزور تھیں انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی سے گود میں اٹھایا   چونچہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا گیا  حضرت حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش نہایت شفقت سے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن بہت ہی حرکتوں والا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تقریبا  چار سال تک حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس رہے  پھر وہ آپ کو حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس چھوڑ آئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مدینہ منورہ میں  اپنے  رشتہ داروں سے ملوانے لے گئ  اور ایک ماہ قیام کیا   واپسی پر بیمار ہو گئ اور ابواء کے مقام پر وفات پاگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے ساتھ ان کی ملازمہ ام یمن تھیں  جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ واپس لے آئیں  والدہ کی و فات کے بعد  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نے لی  وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت بیار کرتے  اور ہر وقت آپ کو اپنے پاس رکھتے تھے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو دادا بھی  وفات پا گئے  اور دادا کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کا ذمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاابو طالب  نے لیا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پیار کرتے تھے انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش نہایت شفقت سے کی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن سے جوانی تک اپنے  چچا ابو طالب کے ساتھ رہے  

حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت پر اہم معلومات 



---

تعارف


حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت باسعادت دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور انسانیت کے لیے سب سے عظیم واقعہ ہے۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کی ولادت نے ظلم و جبر کے اندھیروں میں روشنی پھیلائی اور انسانوں کو ایک اللہ کی عبادت اور اخوت و محبت کا درس دیا۔


---

ولادت باسعادت کی تاریخ اور مقام


حضرت محمد ﷺ 12 ربیع الاول کو عام الفیل میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ سال تھا جب یمن کے بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو گرانے کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو ہلاک کر دیا۔ اس سال کا واقعہ قرآن پاک میں سورۃ الفیل میں بیان ہوا ہے۔


---

والدین اور خاندان


آپ ﷺ کے والد کا نام حضرت عبداللہ اور والدہ کا نام حضرت آمنہ تھا۔ حضرت عبداللہ آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔ آپ ﷺ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنو ہاشم سے تھا۔


---

بچپن اور پرورش


آپ ﷺ کی والدہ محترمہ کا بھی بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا، جس کے بعد آپ ﷺ کی پرورش پہلے دادا عبدالمطلب اور پھر چچا ابو طالب نے کی۔ آپ ﷺ نے کم عمری سے ہی سچائی، دیانت داری اور شجاعت کی مثالیں قائم کیں، اسی لیے لوگ آپ ﷺ کو صادق و امین کے لقب سے پکارنے لگے۔


---

ولادت کی برکتیں


آپ ﷺ کی ولادت کے وقت کئی غیر معمولی واقعات رونما ہوئے، جنہیں تاریخ میں محفوظ کیا گیا ہے، جیسے:

فارس کے آتش کدے جو ہزار سال سے جل رہے تھے، بجھ گئے۔

آسمان کے ستارے چمک اٹھے۔

سرزمین مکہ میں ایک نور کی کرن ظاہر ہوئی۔


یہ سب اس بات کی علامتیں تھیں کہ دنیا میں اللہ کے آخری نبی ﷺ تشریف لا چکے ہیں۔


---

حضور ﷺ کی آمد کا پیغام


آپ ﷺ کی ولادت انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ آپ ﷺ نے جہالت، شرک، ظلم اور بے انصافی کے اندھیروں کو دور کرکے عدل، محبت، ایمان اور علم کا پیغام دیا۔


---

سوالات اور جوابات


سوال 1: حضرت محمد ﷺ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: آپ ﷺ 12 ربیع الاول عام الفیل میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔

سوال 2: آپ ﷺ کے والدین کے نام کیا تھے؟

جواب: والد کا نام حضرت عبداللہ اور والدہ کا نام حضرت آمنہ تھا۔

سوال 3: ولادت باسعادت کے وقت کیا غیر معمولی واقعات ہوئے؟

جواب: آتش کدے بجھ گئے، آسمان کے ستارے چمک اٹھے اور نور کی کرن ظاہر ہوئی۔

سوال 4: آپ ﷺ کو کون سے القابات ملے؟

جواب: آپ ﷺ کو صادق اور امین کہا جاتا تھا۔

سوال 5: آپ ﷺ کی ولادت انسانیت کے لیے کیا پیغام لائی؟

جواب: توحید، عدل، محبت، اخوت اور امن کا پیغام۔


امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...