Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

منگل، 1 جولائی، 2025

مسجد اقصیٰ کی تاریخ

 

🕌  مسجد اقصیٰ – قبلہ اول اور مسلمانوں کا مقدس مقام


مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔

 یہ بلاگ مسجد اقصیٰ کی تاریخ، اہمیت، فضائل اور موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتا ہے۔






---

✨ مسجد اقصیٰ کا تعارف


مسجد اقصیٰ بیت المقدس (یروشلم) میں واقع ہے اور یہ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ قرآن و حدیث میں اس مسجد کی عظمت اور فضیلت کا واضح ذکر موجود ہے۔


---

📜 مسجد اقصیٰ کی تاریخ


1. تعمیر کا آغاز


سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے مسجد حرام کے بعد مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی۔

تقریباً 40 سال کے وقفے سے یہ دونوں مقدس مقامات تعمیر کیے گئے۔


2. حضرت سلیمان علیہ السلام کا دور


حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو اور توسیع کی۔

3. انبیاء علیہم السلام کا مرکز


یہ مسجد کئی انبیاء کا مرکز رہی اور بنی اسرائیل کے انبیاء نے یہاں عبادت اور تبلیغ کی۔


---

🌙 قرآن و حدیث میں مسجد اقصیٰ


1. قرآن میں ذکر


اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء کی پہلی آیت میں مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا، جہاں نبی کریم ﷺ کو معراج کی رات لے جایا گیا۔

2. پہلا قبلہ


ابتدائی دور میں مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، بعد میں حکم الٰہی سے قبلہ تبدیل کر کے خانہ کعبہ کو بنایا گیا۔

3. نبی کریم ﷺ کا سفر


حضرت محمد ﷺ کو معراج کی رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا، جہاں تمام انبیاء نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔


---

🕌 موجودہ حیثیت اور صورتحال


مسجد اقصیٰ بیت المقدس میں واقع ہے اور 144,000 مربع میٹر پر مشتمل ہے۔

اس کے اندر کئی اہم مقامات ہیں جیسے قبۃ الصخرہ اور مصلیٰ اقصیٰ۔

آج یہ مسجد سیاسی و مذہبی اعتبار سے عالم اسلام کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔

اسرائیلی قبضے اور پابندیوں کے باوجود مسلمان اس مسجد سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔



---

🌟 مسجد اقصیٰ کی فضیلت


نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی اور مسجد کے لیے سفر نہ کیا جائے۔"

اس مسجد میں ایک نماز کا اجر ہزار نمازوں کے برابر ہے (صحیح احادیث کے مطابق)۔



---

✅ نتیجہ


مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے۔ یہ نہ صرف قبلہ اول ہے بلکہ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات انبیاء کی امامت فرمائی۔ آج بھی یہ مسجد امت مسلمہ کے لیے اتحاد اور روحانی وابستگی کی علامت ہے۔


مسجد اقصیٰ کی تاریخ

قبلہ اول

مسجد اقصیٰ کے فضائل

بیت المقدس کی اہمیت

معراج اور مسجد اقصیٰ


❓ مسجد اقصیٰ سے متعلق عمومی سوالات (FAQ)


1. مسجد اقصیٰ کہاں واقع ہے؟


📍 مسجد اقصیٰ بیت المقدس (یروشلم) میں واقع ہے جو فلسطین کا تاریخی اور مذہبی شہر ہے۔


---

2. مسجد اقصیٰ اسلام میں کیوں اہم ہے؟


🕌 مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ تھا اور نبی کریم ﷺ کو معراج کی رات یہاں لایا گیا جہاں تمام انبیاء نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔


---

3. مسجد اقصیٰ کا رقبہ کتنا ہے؟


📐 مسجد اقصیٰ تقریباً 144,000 مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں کئی ذیلی مساجد اور مقامات مقدسہ شامل ہیں جیسے قبۃ الصخرہ اور مصلیٰ اقصیٰ۔


---

4. کیا مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ ایک ہی ہیں؟


❌ نہیں۔

مسجد اقصیٰ پورے حرم شریف کو کہا جاتا ہے۔

قبۃ الصخرہ (Dome of the Rock) مسجد اقصیٰ کے اندر واقع ایک گنبد دار مقام ہے جو حضرت محمد ﷺ کے سفر معراج سے جڑا ہوا ہے۔



---

5. کیا مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضیلت زیادہ ہے؟


✅ جی ہاں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی اور مسجد کے لیے سفر نہ کیا جائے۔ مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا اجر ہزار نمازوں کے برابر ہے۔


---

6. مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر کس نے کی؟


📜 روایت کے مطابق، سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی تھی۔ بعد میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تعمیر نو اور توسیع کی۔


---

7. آج مسجد اقصیٰ کی حالت کیسی ہے؟


⚠️ موجودہ دور میں مسجد اقصیٰ اسرائیلی قبضے میں ہے اور اکثر مسلمانوں کے لیے وہاں عبادت پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ مسجد مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کی علامت ہے۔



مسجد الحرام کی تعمیر


مسجد الحرام اسلام کی سب سے مقدس عبادت گاہ ہے، جہاں خانہ کعبہ واقع ہے۔ یہ بلاگ مسجد الحرام کی تاریخ، اہمیت، تعمیرات اور فضائل پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے

۔

مسجد الحرام کی تاریخ


خانہ کعبہ کی تعمیر


مسجد الحرام کی توسیع


فضائل مسجد الحرام


حج اور عمرہ





✨ مسجد الحرام کا تعارف


مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں واقع ہے اور یہ وہی جگہ ہے جہاں خانہ کعبہ موجود ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے اور ہر سال لاکھوں مسلمان یہاں حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں بھی مسجد الحرام کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے "بیت اللہ" کہا گیا ہے۔


---

📜 مسجد الحرام کی تاریخ


1. حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام

مسجد الحرام کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ رکھی۔
قرآن میں ارشاد ہے:
"اور جب ابراہیم اور اسماعیل خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے، (انہوں نے دعا کی) اے ہمارے رب! ہم سے یہ قبول فرما۔" (البقرہ: 127)

2. قبل از اسلام دور


بعثتِ نبوی ﷺ سے پہلے بھی کعبہ اہلِ عرب کے لیے مقدس مقام تھا، لیکن مشرکین نے اس میں بت رکھ کر اسے شرک کی جگہ بنا دیا تھا۔

3. دورِ نبوی ﷺ


فتح مکہ کے بعد حضور ﷺ نے کعبہ کو تمام بتوں سے پاک فرمایا اور اسے صرف اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص کر دیا۔


---

🕌 مسجد الحرام کی تعمیرات اور توسیعات


اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں مسجد الحرام کی بار بار توسیع کی گئی تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور حجاج کی سہولت کو مدنظر رکھا جا سکے۔

خلافت راشدہ: حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں پہلی بڑی توسیعات ہوئیں۔

اموی اور عباسی خلافت: مزید تعمیرات اور سہولیات کا اضافہ کیا گیا۔

عثمانی دور: بڑے پیمانے پر مرمت اور خوبصورت تعمیرات کی گئیں۔

سعودی دور: جدید سہولیات، ایئر کنڈیشنڈ صحن، زمزم پراجیکٹ، اور لاکھوں نمازیوں کی گنجائش پیدا کی گئی۔



---

🌙 مسجد الحرام کی فضیلت


1. ایک نماز کا ثواب مسجد الحرام میں لاکھوں گنا زیادہ ہے۔


2. خانہ کعبہ کی زیارت، طواف اور سعی مسلمانوں کے لیے روحانی سکون کا ذریعہ ہیں۔


3. حج اور عمرہ کی ادائیگی یہیں ممکن ہے، جو اسلام کے اہم ارکان میں شامل ہیں۔




---

🕋 مسجد الحرام اور حج


مسجد الحرام حج کا مرکز ہے۔ ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں دنیا بھر سے مسلمان یہاں جمع ہوتے ہیں۔

طوافِ کعبہ


سعی بین الصفا والمروہ

وقوفِ عرفات
یہ سب اعمال مسجد الحرام اور اس کے اردگرد کے مقدس مقامات سے وابستہ ہیں۔



---

📍 موجودہ سہولیات


ایئر کنڈیشنڈ ہالز

جدید صوتی نظام

خودکار صفائی

معذور افراد کے لیے خصوصی راستے

زمزم کے کولنگ پوائنٹس



---

✅ نتیجہ


مسجد الحرام اسلام کا سب سے مقدس مقام ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے عقیدت و محبت کا مرکز ہے۔ اس کی تاریخ، توسیعات اور فضیلت مسلمانوں کے ایمان کو تازگی بخشتی ہے اور یہ قیامت تک مسلمانوں کا قبلہ رہے گی۔



مسجد الحرام: سوالات اور جوابات (FAQ)


سوال 1: مسجد الحرام کہاں واقع ہے؟


جواب: مسجد الحرام سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ یہ اسلام کی سب سے مقدس مسجد ہے جس کے وسط میں خانہ کعبہ موجود ہے۔


---

سوال 2: مسجد الحرام کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟


جواب: مسجد الحرام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے وسط میں خانہ کعبہ ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمان نماز کے دوران اسی کی طرف رخ کرتے ہیں۔


---

سوال 3: مسجد الحرام کا رقبہ کتنا ہے؟


جواب: موجودہ توسیعات کے بعد مسجد الحرام میں تقریباً 25 لاکھ سے زائد نمازی بیک وقت عبادت کرسکتے ہیں، جس سے یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔


---

سوال 4: مسجد الحرام میں حج اور عمرہ کا کیا مقام ہے؟


جواب: حج اور عمرہ دونوں کے اہم اعمال مسجد الحرام میں ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ طوافِ کعبہ، سعی صفا و مروہ، اور دیگر مناسک حج و عمرہ اسی مقدس مقام پر ادا ہوتے ہیں۔


---

سوال 5: مسجد الحرام میں کون کون سے اہم مقامات ہیں؟


جواب: مسجد الحرام میں موجود چند اہم مقامات درج ذیل ہیں:

خانہ کعبہ

مقامِ ابراہیم

حجرِ اسود

زمزم کا کنواں

صفا و مروہ

  

بدھ، 30 اپریل، 2025

حضرت یعقوب علیہ السلام کی مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات


 

حصہ گیارہواں:

اور آخری حصہ 



 یعقوب علیہ السلام کا مصر کی طرف سفر اور یوسف علیہ السلام سے ملاقات



---

یعقوب علیہ السلام کو خوشخبری ملنا


جب قافلہ یوسف علیہ السلام کا کرتا لے کر مصر سے روانہ ہوا اور کنعان کے قریب پہنچا، تو یعقوب علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے یوسف کی خوشبو آنے لگی۔

آپ نے فرمایا:

> "مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے، اگر تم مجھے کم عقل نہ سمجھو۔"



گھر والے حیران ہوئے، لیکن جیسے ہی کرتا چہرے پر ڈالا گیا، آپ کی بینائی واپس لوٹ آئی۔

یعقوب علیہ السلام نے فوراً فیصلہ کیا کہ پورے خاندان کے ساتھ مصر ہجرت کی جائے۔



---

مصر کی طرف ہجرت


یعقوب علیہ السلام اپنے تمام بیٹوں، بیٹیوں اور پوتوں سمیت اہلِ بیت کو لے کر روانہ ہوئے۔

تفسیر کے مطابق، خاندان کے افراد کی تعداد ستر سے زیادہ تھی۔

یہ قافلہ عزت و وقار کے ساتھ مصر کی جانب بڑھا، جہاں اللہ کی طرف سے راحت اور سکون ان کا منتظر تھا۔



---

والد اور بیٹے کی ملاقات


جب قافلہ مصر پہنچا تو یوسف علیہ السلام نے شاہی دربار سے باہر آکر استقبال کیا۔

یوسف علیہ السلام نے والد کو گلے لگایا، برسوں کی جدائی اور غم آنسوؤں میں بہہ گیا۔

قرآن کریم بیان کرتا ہے:


> "یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور سب کو تخت پر بٹھایا، اور وہ سب سجدہ شکر میں گر پڑے۔" (سورہ یوسف، 100)




یہ وہی خواب کی تعبیر تھی جو یوسف علیہ السلام نے بچپن میں دیکھی تھی کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے ان کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔


---

یوسف علیہ السلام کی دعا


اس موقع پر یوسف علیہ السلام نے شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی:

"اے میرے رب! تو نے مجھے بادشاہت عطا کی، خواب کی تعبیر سکھائی، آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ مجھے اسلام پر موت دینا اور صالحین کے ساتھ شامل فرمانا۔"



---

اس حصے سے حاصل ہونے والے سبق


1. اللہ کی حکمت اور وعدہ پورا ہوتا ہے: یوسف علیہ السلام کا خواب برسوں بعد حقیقت میں ظاہر ہوا۔


2. صبر کے بعد سکون: یعقوب علیہ السلام نے سالہا سال صبر کیا، آخرکار اللہ نے ان کے صبر کا بدلہ دیا۔


3. شکر اور دعا کی اہمیت: نعمت ملنے پر یوسف علیہ السلام نے سب کچھ اللہ کا فضل قرار دیا اور آخرت کی فلاح مانگی۔


4. خاندان کی برکت: یعقوب علیہ السلام کا پورا خاندان ایمان اور عزت کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوا۔




---

حضرت یوسف علیہ السلام سے متعلق اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQ)



---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کون تھے؟


✅ حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسن و جمال، خواب کی تعبیر اور حکمت میں خاص مقام عطا فرمایا۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب کیا تھا؟


✅ آپ نے خواب میں سورج، چاند اور گیارہ ستارے دیکھا جو آپ کو سجدہ کر رہے تھے۔ اس کی تعبیر اس وقت پوری ہوئی جب آپ کے والدین اور گیارہ بھائی مصر میں آپ کے سامنے جھکے۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں کیوں ڈالا گیا؟


✅ بھائیوں نے حسد اور بغض کی وجہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا تاکہ یعقوب علیہ السلام کی محبت سے محروم کر سکیں۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو کس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا؟


✅ سب سے بڑی آزمائش عزیز مصر کی بیوی کا فتنہ تھا، لیکن یوسف علیہ السلام نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا اور گناہ سے بچ گئے۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر میں کون سا عہدہ ملا؟


✅ بادشاہ نے انہیں مصر کے خزانے اور زراعت کا وزیر بنایا تاکہ وہ قحط سالی سے نمٹ سکیں۔


---

❓ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کب واپس آئی؟


✅ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا کرتا بھیجا اور یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر رکھا گیا، تو اللہ کے حکم سے ان کی بینائی واپس آ گئی۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کیوں کیا؟


✅ جب بھائیوں نے اپنی غلطی مانی تو یوسف علیہ السلام نے فرمایا:

> "آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔"
یہ ان کے عفو و درگزر اور نبیوں کی اعلیٰ صفات کی مثال ہے۔




---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے کیا سبق ملتا ہے؟



صبر کے بعد اللہ کی مدد آتی ہے۔

حسد خاندانوں کو تباہ کرتا ہے۔

پاکدامنی اور تقویٰ سے عزت ملتی ہے۔

معافی سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔

اللہ کی حکمت ہر حال میں غالب رہتی ہے۔  


اس قصے میں ہم نے جن مضامین کا مطالعہ کیا 


---حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف کا قصہ

یوسف علیہ السلام کا خواب

یوسف علیہ السلام کے بھائی

کنویں میں ڈالنے کا واقعہ

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی

قرآن میں حضرت یوسف کا واقعہ

یوسف علیہ السلام کی آزمائش

آخر کار یہ قصہ یہی اختتام پذیر ہوا 

حضرت یعقوب علیہ السلام کا عزیز مصر کے نام خط



حضرت یعقوب علیہ السلام کا خط، یوسف علیہ السلام کا انکشاف، بھائیوں کی توبہ اور قمیص یوسفی کا معجزہ—یہ حصہ قصۂ یوسف کا سب سے ایمان افروز منظر ہے۔ صبر، معافی اور اللہ کی حکمت کے عظیم اسباق پر مشتمل۔




حصہ دسواں: یوسف علیہ السلام کا تعارف، بھائیوں کی توبہ اور یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی واپسی



---


یعقوب علیہ السلام کا خط عزیزِ مصر کے نام


یعقوب علیہ السلام نے غم و کرب کی حالت میں عزیزِ مصر کو ایک خط لکھا، جس کا خلاصہ یہ تھا:


"میں یعقوب صفی اللہ بن اسحٰق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں۔


ہمارا خاندان ہمیشہ آزمائشوں میں رہا ہے:


ابراہیم علیہ السلام کا امتحان آتشِ نمرود میں،


اسحٰق علیہ السلام کا امتحان،


اور اب میرا امتحان میرے بیٹے یوسف کے ذریعے۔



یوسف کی جدائی سے میری بینائی جاتی رہی۔


پھر میرا دوسرا سہارا بنیامین بھی قید کر لیا گیا۔


ہم انبیا کی اولاد ہیں، ہم پر چوری کا الزام کیسے لگ سکتا ہے؟"




---


یوسف علیہ السلام کا راز افشا ہونا


جب یوسف علیہ السلام نے یہ خط پڑھا:


وہ جذبات سے لرز گئے اور بے اختیار رونے لگے۔


بھائیوں سے فرمایا:


> "کیا تمہیں یاد ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جب تم جہالت میں تھے؟"





بھائی حیران رہ گئے اور آپس میں کہنے لگے:


"کیا یہ عزیزِ مصر دراصل یوسف ہی ہیں؟"


آخرکار انہوں نے پہچان لیا اور پوچھا:


> "کیا آپ واقعی یوسف ہیں؟"





یوسف علیہ السلام نے فرمایا:


> "ہاں، میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔

اللہ نے ہم پر فضل فرمایا۔

جو صبر کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے، اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"





---


بھائیوں کی توبہ اور یوسف علیہ السلام کی معافی


بھائی اپنی غلطی پر شرمندہ ہوئے اور معافی مانگی۔


یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ حلم اور عفو سے فرمایا:


> "آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ اللہ تمہیں بخشے۔"





یہی الفاظ بعد میں نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر قریش کے لیے دہرائے۔



---


کرتا اور بینائی کی واپسی کا معجزہ


یوسف علیہ السلام نے اپنا کرتا دیا اور فرمایا:


"یہ کرتا والد کے چہرے پر ڈالنا، ان کی بینائی لوٹ آئے گی۔"



قمیص یوسفی کی حقیقت


یہ عام کرتا نہ تھا بلکہ جنتی کرتا تھا۔


یہ لباس جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جانے کے وقت جنت سے لایا گیا تھا۔


پھر یہ کرتا نسل در نسل منتقل ہوا:


ابراہیم → اسحٰق → یعقوب → یوسف۔



برادران یوسف نے جب یوسف کو کنویں میں ڈالا تو جبرائیل نے یہی کرتا دوبارہ یوسف کو پہنا دیا۔


یہی کرتا معجزے کے طور پر یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی بحالی کا ذریعہ بنا۔




---


خوشبو کا معجزہ


جب قافلہ کرتا لے کر مصر سے روانہ ہوا:


حضرت یعقوب علیہ السلام کو دور ہی سے یوسف کی خوشبو آنے لگی۔


یہ اس بات کی دلیل تھی کہ انبیا بھی اللہ کے حکم کے بغیر غیب نہیں جانتے۔


یہ خوشبو اللہ کے حکم سے تھی تاکہ یعقوب علیہ السلام کے صبر کا صلہ ظاہر ہو۔




---


اس حصے سے حاصل سبق


1. صبر اور تقویٰ کا صلہ: یوسف علیہ السلام نے مشکلات کے باوجود صبر کیا اور اللہ نے انہیں عزت عطا فرمائی۔



2. معافی کی عظمت: یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کیا، نبی ﷺ نے بھی یہی سنت اپنائی۔



3. انبیا کی سنتِ آزمائش: ہر نبی آزمائش سے گزرا، اور وہی امتحان در

اصل درجات کی بلندی کا ذریعہ بنا۔



4. معجزۂ قمیص یوسفی: یہ اللہ کی قدرت کی نشانی تھی کہ کپڑے کے وسیلے سے بینائی واپس لوٹ آئی۔



آپ نے مطالعہ کیا 

حضرت یوسف علیہ السلام، قمیص یوسفی، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی، جنتی کرتا، بھائیوں کی توبہ، یوسف کا انکشاف، صبر و تقویٰ، قصہ یوسف۔


بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 


بنیامین کی واپسی کے لیے بھائیوں کا آپس میں مشورہ




حصہ نواں: 


بھائیوں کی مایوسی، یعقوب علیہ السلام کا صبر اور حقیقت کا انکشاف



---

بنیامین کی رہائی کی درخواست


جب برادرانِ یوسف نے دیکھا کہ بنیامین گرفتار ہو گئے ہیں اور واپسی ممکن نہیں، تو وہ عزیزِ مصر (یوسف علیہ السلام) سے عرض گزار ہوئے:

"ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے، پہلے ہی یوسف کی جدائی کا غم سہہ رہا ہے۔

اگر بنیامین بھی نہ گیا تو وہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گا۔

مہربانی فرما کر بنیامین کو چھوڑ دیجیے اور اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو روک لیجیے۔"


یوسف علیہ السلام نے جواب دیا:


> "خدا کی پناہ! ہم کسی بےگناہ کو کیسے روک سکتے ہیں؟ ہم ظالموں میں سے نہیں ہیں۔"




---

بڑے بھائی کا فیصلہ


جب سب تدبیریں ناکام ہوئیں تو بھائی خلوت میں مشورہ کرنے لگے۔

بڑے بھائی (جن کا نام بعض مفسرین کے مطابق یہودا یا روبِیل تھا) نے کہا:

"میں تو یہیں رہوں گا، مصر سے واپس نہیں جاؤں گا۔

تم سب والد کو حقیقت بتا دینا کہ بنیامین پر چوری ثابت ہوئی اور اسی بنا پر اسے روک لیا گیا ہے۔

یہ بات ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، ہمیں اس کا علم پہلے سے نہ تھا۔

اگر والد کو یقین نہ آئے تو وہ مصر کے لوگوں یا اس قافلے سے تحقیق کر لیں جو ہمارے ساتھ ہے۔"




---

یعقوب علیہ السلام کا صبر اور آنسو


جب بھائی واپس گئے اور والد کو خبر دی، تو یعقوب علیہ السلام کو یقین نہ آیا۔

انہوں نے فرمایا:

> "تم نے یہ بات اپنی طرف سے گھڑی ہے۔ میرے لیے صبر ہی بہتر ہے۔
عنقریب اللہ سب کو میرے پاس لے آئے گا۔"



اس صدمے کے بعد یعقوب علیہ السلام کا دل غم سے بھر گیا۔

وہ اکثر اللہ کے حضور گریہ کرتے، یہاں تک کہ کثرتِ رونے سے آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔

مفسرین کے مطابق یہ حالت تقریباً چھ سال تک رہی۔



---

بھائیوں کی دوسری واپسی مصر


قحط کی شدت نے برادران یوسف کو دوبارہ مصر آنے پر مجبور کیا۔

اس بار وہ غلہ خریدنے کے لیے بہتر مال نہ لا سکے، بلکہ معمولی چیزیں لے کر آئے۔

عاجزی سے کہنے لگے:

> "اے عزیزِ مصر! ہم سخت تکلیف میں ہیں۔ یہ ناقص سامان ہے، براہِ کرم اسے قبول فرما لیجیے اور ہمیں پورا غلہ عنایت فرما دیجیے۔ اسے خیرات سمجھ کر دے دیجیے، اللہ خیرات کرنے والوں کو اجر دیتا ہے۔"





---

یوسف علیہ السلام کا انکشاف


جب یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی عاجزی اور شکستہ حالت دیکھی تو ان کا دل بھر آیا۔

وہ وقت آ پہنچا تھا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردہ اٹھانے کی اجازت مل گئی۔

یوسف علیہ السلام نے اپنی پہچان ظاہر کی اور فرمایا:

> "کیا تم نے میرے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا تھا جب میں بچپن میں تھا؟
میں ہی یوسف ہوں، اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔
اللہ نے ہم پر فضل فرمایا۔ جو صبر کرے اور پرہیزگار ہو، اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"




یہ انکشاف نہ صرف بھائیوں کو حیران کر گیا بلکہ یعقوب علیہ السلام کی دعاؤں اور صبر کا صلہ بھی ثابت ہوا۔


---


حصہ نواں کے اہم سوالات (FAQ)


سوال 1: بڑے بھائی نے بنیامین کے معاملے میں کیا فیصلہ کیا؟

جواب: انہوں نے کہا کہ وہ مصر میں ہی رہیں گے اور باقی بھائی والد کو خبر دیں۔

سوال 2: یعقوب علیہ السلام پر اس صدمے کا کیا اثر ہوا؟

جواب: کثرتِ گریہ سے ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ کئی سال غم کی کیفیت میں رہے۔

سوال 3: بھائی دوبارہ کیوں مصر آئے؟

جواب: قحط کی شدت نے انہیں دوبارہ مجبور کیا کہ وہ مصر جا کر غلہ خریدیں۔

سوال 4: یوسف علیہ السلام نے کب اپنی حقیقت ظاہر کی؟

جواب: جب بھائی عاجزی سے غلہ مانگنے آئے تو انہوں نے خود کو ظاہر کیا اور فرمایا: "میں یوسف ہوں۔"


---

نتیجہ 


حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین کی گرفتاری کے بعد مایوس ہو گئے۔ یعقوب علیہ السلام نے صبر کیا اور کثرت گریہ سے بینائی کھو دی۔ قحط کی شدت پر بھائی دوبارہ مصر گئے تو یوسف علیہ السلام نے اپنی حقیقت ظاہر کی اور اللہ کی حکمت پوری ہوئی۔


---

آپ نے مطالعہ کیا 


حضرت یوسف علیہ السلام، بنیامین کی گرفتاری، بڑے بھائی کا فیصلہ، یعقوب علیہ السلام کا صبر، آنکھوں کی بینائی، بھائیوں کی واپسی، یوسف کا انکشاف، قصۂ یوسف۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی بنیامین کو روکنے کی تدابیر


 

حصہ ہشتم: 



 بنیامین کو روکنے کی حکمت عملی اور بھائیوں کا الزام



---

حضرت یوسف علیہ السلام کی حکمت عملی


جب بھائی دوبارہ مصر آئے اور غلہ خرید کر واپس جانے لگے، تو یوسف علیہ السلام کی خواہش تھی کہ اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیں۔ مگر مصری قانون کے مطابق ایسا ممکن نہ تھا کہ کسی شخص کو بلا وجہ روکا جائے۔
چنانچہ یوسف علیہ السلام نے ایک تدبیر اختیار کی:

ہر بھائی کے اونٹ پر الگ الگ غلہ رکھا گیا۔

بنیامین کے اونٹ پر غلہ کے ساتھ ایک قیمتی شاہی برتن (جسے قرآن "سقايہ" اور "صواع الملک" کہتا ہے) خفیہ طور پر رکھ دیا گیا۔

یہ برتن سونے یا چاندی کا خاص پیمانہ تھا جو بادشاہ کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔



---

چوری کا اعلان اور الزام


جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو کچھ دیر بعد شاہی منادی نے پکارا:

> "اے قافلہ والو! تم چور ہو!"



یہ اعلان دراصل ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا، مگر عام کارندوں کو اس کی حقیقت معلوم نہ تھی۔

جب برتن محل میں نہ ملا تو شک سیدھا یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں پر گیا، کیونکہ وہی شاہی مہمان تھے۔

بھائیوں نے حیرت سے کہا: "ہم پر جھوٹا الزام کیوں لگا رہے ہو؟ ہم پہلے بھی ایمانداری کے ساتھ یہاں آئے تھے۔"


کارندوں نے جواب دیا کہ:

> "شاہی پیمانہ گم ہو گیا ہے، اور جو اسے واپس لائے گا اسے ایک اونٹ بھر غلہ انعام ملے گا۔"




---

برادران یوسف کی تلاشی


کارندوں نے پوچھا: "اگر تم میں سے کسی کے سامان سے یہ برتن نکلے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟"
بھائیوں نے اپنے شریعت کے مطابق کہا:

> "جس کے سامان سے برتن نکلے، وہی شخص غلام بنا لیا جائے۔"



یہ سن کر تلاشی شروع ہوئی:

پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی جانچ کی گئی، وہاں برتن نہ ملا۔

آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی گئی اور شاہی پیمانہ برآمد ہوا۔


یوں یوسف علیہ السلام کی حکمت کامیاب ہوئی اور بنیامین کو روکنے کا شرعی جواز پیدا ہو گیا۔


---

بھائیوں کا رویہ اور الزام تراشی


جب بنیامین کے سامان سے برتن نکلا تو باقی بھائیوں نے فوراً کہا:

> "اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو تعجب نہیں، اس کا بھائی یوسف بھی پہلے چوری کر چکا ہے۔"



یہ الزام دراصل ایک پرانا قصہ دہرانا تھا:

یوسف علیہ السلام کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کی پرورش پھوپھی کے پاس ہوئی۔

پھوپھی انہیں اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے ایک چال چلی:

اپنے قیمتی پٹکے کو یوسف کے کپڑوں میں باندھ دیا۔

پھر اعلان کیا کہ "میرا پٹکا چوری ہو گیا ہے۔"

تلاشی کے بعد جب وہ یوسف کے پاس سے ملا تو شرعی حکم کے مطابق یوسف کو پھوپھی کے پاس روک لیا گیا۔



یہی واقعہ "یوسف کی چوری" کے طور پر مشہور ہو گیا، حالانکہ حقیقت میں یہ محض ایک تدبیر تھی، نہ کہ اصل چوری۔


---

یوسف علیہ السلام کا صبر اور خاموشی


جب بھائیوں نے یہ الزام دہرا کر کہا کہ "یوسف بھی چوری کر چکا ہے"، تو یوسف علیہ السلام کے دل پر گہرا صدمہ ہوا۔

لیکن انہوں نے ضبط کیا، غصہ پی گئے، اور دل میں کہا:


> "یہ تمہاری بری جگہ ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، اور اللہ حقیقت کو خوب جانتا ہے۔"



یوسف علیہ السلام نے حقیقت ظاہر نہیں کی اور خاموشی اختیار کی، کیونکہ یہ سب کچھ اللہ کی حکمت کے مطابق ہو رہا تھا۔


---

حصہ ہشتم کے اہم سوالات (FAQ)


سوال 1: صواع الملک کیا تھا؟

جواب: ایک قیمتی برتن جو شاہی پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، ممکن ہے سونے یا چاندی کا ہو۔

سوال 2: یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے کیا تدبیر کی؟

جواب: انہوں نے شاہی پیمانہ بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا تاکہ قانون کے مطابق اسے روک سکیں۔

سوال 3: بھائیوں نے یوسف علیہ السلام پر "چوری" کا الزام کیوں لگایا؟

جواب: بچپن میں پھوپھی نے ایک تدبیر سے یوسف کو اپنے پاس رکھا تھا، جسے غلط طور پر چوری کا واقعہ بنا کر پیش کیا گیا۔

سوال 4: یوسف علیہ السلام نے الزام سن کر کیا ردعمل دیا؟

جواب: انہوں نے غصہ ضبط کیا اور حقیقت ظاہر نہ کی، کیونکہ یہ سب اللہ کی حکمت کا حصہ تھا۔


---

نتیجہ 


حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے شاہی پیمانہ ان کے سامان میں رکھوا دیا۔ تلاشی کے بعد برتن برآمد ہوا اور بھائیوں نے بنیامین پر الزام لگایا، بلکہ یوسف پر بھی پرانی "چوری" کی بات دہرا دی۔ یہ سب اللہ کی حکمت کے مطابق ہوا۔


--آپ نے مطالعہ کیا 


حضرت یوسف علیہ السلام، بنیامین کا واقعہ، صواع الملک، سقایہ، یوسف کی حکمت عملی، بھائیوں کا الزام، قیمتی برتن، تفسیر قرطبی، پھوپھی کا واقعہ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کا بنیامین کو بھیجنے سے انکار


---

حصہ ہفتم:


 حضرت یعقوب علیہ السلام کا بنیامین کو بھیجنے سے انکار اور یوسف علیہ السلام سے ملاقات



---

حضرت یعقوب علیہ السلام کا بیٹوں سے مکالمہ


جب بھائیوں نے مصر سے واپسی پر حضرت یعقوب علیہ السلام کو ساری روداد سنائی اور بتایا کہ مصر کے حکمران نے دوبارہ غلہ دینے کے لیے بنیامین کو ساتھ لانے کی شرط عائد کی ہے، تو حضرت یعقوب علیہ السلام سخت پریشان ہو گئے۔

انہوں نے فرمایا: "میں بنیامین کو تمہارے ساتھ ہرگز نہیں بھیجوں گا، کیونکہ یوسف کے بارے میں تم پر اعتماد کیا تھا لیکن تم اس کی حفاظت نہ کر سکے۔"

لیکن قحط کی شدت اور خاندان کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے بیٹوں نے بہت اصرار کیا۔


بالآخر حضرت یعقوب علیہ السلام نے شرط رکھی:

"تم سب اللہ کے نام پر مجھ سے عہد کرو کہ بنیامین کو ضرور واپس لاؤ گے، سوائے اس کے کہ ہم خود ہی گھیر لیے جائیں اور واپسی ناممکن ہو جائے۔"

سب نے قسم کھا کر وعدہ کیا، تب جا کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اجازت دی۔


یہاں سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے کہ مومن صرف ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ اصل بھروسہ اللہ پر ہی ہوتا ہے۔


---

بیٹوں کے لیے نصیحت: الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا


جب قافلہ روانہ ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو ایک خاص نصیحت فرمائی:

"مصر شہر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔"


اس نصیحت میں کئی حکمتیں تھیں:


1. نظرِ بد سے حفاظت – چونکہ وہ سب حسین و جمیل اور تعداد میں زیادہ تھے، ایک ساتھ داخل ہونا لوگوں کی توجہ مبذول کرا سکتا تھا۔


2. سازشوں سے بچاؤ – الگ الگ داخل ہونے سے دشمنوں کی نگاہ میں کم پڑیں گے۔


3. عملی تدبیر – نبی کی سنت ہے کہ ظاہری اسباب بھی اختیار کیے جائیں لیکن دل اللہ پر توکل رکھے۔



یعقوب علیہ السلام نے ساتھ ہی واضح کر دیا کہ:

> "میری نصیحت تدبیر ہے، اصل فیصلہ اللہ کا ہے۔ اگر وہ کچھ اور چاہے تو کوئی تدبیر کام نہیں آ سکتی۔"




---

اللہ کی حکمت: یوسف علیہ السلام کی خاموشی


یہاں ایک حیرت انگیز نکتہ ہے کہ:

حضرت یعقوب علیہ السلام یوسف علیہ السلام کی جدائی میں اتنے غمگین تھے کہ روتے روتے بینائی ضائع کر بیٹھے۔

دوسری طرف یوسف علیہ السلام بھی اپنے والد سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ لیکن حیرت ہے کہ بیس سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود انہوں نے کبھی خبر نہیں بھیجی۔


اس کی وجہ صرف ایک تھی:

اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے یوسف علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ ابھی تک اپنی حقیقت ظاہر نہ کریں۔

یہ سب کچھ اللہ کی حکمت اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے امتحان کا حصہ تھا۔

جیسا کہ تفسیر قرطبی میں بیان ہے: اللہ اپنی حکمتوں کو سب سے بہتر جانتا ہے اور اس کے فیصلے ہمیشہ عین مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔



---

یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی ملاقات


جب بھائی مصر پہنچے اور یوسف علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئے، تو یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا حقیقی بھائی بنیامین بھی ان کے ساتھ ہے۔

آپ نے بھائیوں کو شاہی عزت و اکرام کے ساتھ ٹھہرایا۔

رہائش کا انتظام اس طرح کیا کہ ہر دو بھائیوں کو ایک کمرے میں رکھا گیا، لیکن بنیامین تنہا رہ گئے۔

یہ یوسف علیہ السلام کی حکمت تھی تاکہ انہیں موقع ملے کہ بنیامین سے تنہائی میں گفتگو کر سکیں۔


ملاقات کا منئظر


یہ دونوں بھائی تقریباً بیس یا اکیس سال بعد ملے تھے۔

یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو بتایا کہ کس طرح بھائیوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا اور پھر اللہ نے انہیں عزت و اقتدار عطا کیا۔

بنیامین نے اپنے دکھ بیان کیے کہ وہ بھی بھائیوں کے ظلم کا شکار رہا ہے۔

یوسف علیہ السلام نے اسے تسلی دی اور کہا: "اب غم کے دن ختم ہو گئے ہیں، اب تم میرے ساتھ رہو گے۔"


لیکن ایک رکاوٹ

یوسف علیہ السلام کی شدید خواہش تھی کہ بنیامین کو روک لیں۔

لیکن مصری قانون کے مطابق کسی غیر ملکی کو بلا وجہ روک لینا منع تھا۔

اس لیے یوسف علیہ السلام نے ایک حکیمانہ تدبیر سوچنا شروع کی جس کے ذریعے بنیامین کو اپنے پاس رکھ سکیں اور بھائیوں کو اصل حقیقت بھی نہ کھلے۔



---

حصہ ہفتم کے اہم سوالات (FAQ)


سوال 1: حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو بھیجنے سے کیوں انکار کیا؟

جواب: یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے بعد وہ بھائیوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور بنیامین کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔

سوال 2: حضرت یعقوب علیہ السلام نے الگ الگ دروازوں سے داخل ہونے کی نصیحت کیوں کی؟

جواب: تاکہ وہ نظرِ بد اور دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں، لیکن اصل حفاظت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

سوال 3: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد کو اپنی حقیقت کیوں نہ بتائی؟

جواب: اللہ نے وحی کے ذریعے انہیں روکے رکھا تاکہ یعقوب علیہ السلام کا امتحان مکمل ہو۔

سوال 4: یوسف اور بنیامین کی ملاقات کتنے عرصے بعد ہوئی؟

جواب: تقریباً بیس سے اکیس سال بعد۔

سوال 5: یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے کیا تدبیر سوچ رکھی تھی؟

جواب: انہوں نے ایک حکمت عملی تیار کی جس کا ذکر اگلے حصے (پیالے کا واقعہ) میں آتا ہے۔


---

نتیجہ 


حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے سے انکار کیا، لیکن عہد لینے کے بعد اجازت دی۔ مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی طویل جدائی کے بعد ملاقات ہوئی، مگر یوسف نے حقیقت ظاہر نہ کی اور ایک حکیمانہ تدبیر کے ذریعے بھائی کو اپنے پاس روکنے کی سوچ رکھی۔


---

آپ نے مطالعہ کیا 


حضرت یعقوب علیہ السلام، بنیامین کا سفر، حضرت یوسف علیہ السلام، دربار یوسفی، قحط سالی، بھائیوں کا عہد، الگ دروازوں سے داخل ہونا، وحی الٰہی، یوسف اور بنیامین کی ملاقات۔

بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...