حصہ ہشتم:
بنیامین کو روکنے کی حکمت عملی اور بھائیوں کا الزام
---
حضرت یوسف علیہ السلام کی حکمت عملی
جب بھائی دوبارہ مصر آئے اور غلہ خرید کر واپس جانے لگے، تو یوسف علیہ السلام کی خواہش تھی کہ اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیں۔ مگر مصری قانون کے مطابق ایسا ممکن نہ تھا کہ کسی شخص کو بلا وجہ روکا جائے۔
چنانچہ یوسف علیہ السلام نے ایک تدبیر اختیار کی:
ہر بھائی کے اونٹ پر الگ الگ غلہ رکھا گیا۔
بنیامین کے اونٹ پر غلہ کے ساتھ ایک قیمتی شاہی برتن (جسے قرآن "سقايہ" اور "صواع الملک" کہتا ہے) خفیہ طور پر رکھ دیا گیا۔
یہ برتن سونے یا چاندی کا خاص پیمانہ تھا جو بادشاہ کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔
---
چوری کا اعلان اور الزام
جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو کچھ دیر بعد شاہی منادی نے پکارا:
> "اے قافلہ والو! تم چور ہو!"
یہ اعلان دراصل ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا، مگر عام کارندوں کو اس کی حقیقت معلوم نہ تھی۔
جب برتن محل میں نہ ملا تو شک سیدھا یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں پر گیا، کیونکہ وہی شاہی مہمان تھے۔
بھائیوں نے حیرت سے کہا: "ہم پر جھوٹا الزام کیوں لگا رہے ہو؟ ہم پہلے بھی ایمانداری کے ساتھ یہاں آئے تھے۔"
کارندوں نے جواب دیا کہ:
> "شاہی پیمانہ گم ہو گیا ہے، اور جو اسے واپس لائے گا اسے ایک اونٹ بھر غلہ انعام ملے گا۔"
---
برادران یوسف کی تلاشی
کارندوں نے پوچھا: "اگر تم میں سے کسی کے سامان سے یہ برتن نکلے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟"
بھائیوں نے اپنے شریعت کے مطابق کہا:
> "جس کے سامان سے برتن نکلے، وہی شخص غلام بنا لیا جائے۔"
یہ سن کر تلاشی شروع ہوئی:
پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی جانچ کی گئی، وہاں برتن نہ ملا۔
آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی گئی اور شاہی پیمانہ برآمد ہوا۔
یوں یوسف علیہ السلام کی حکمت کامیاب ہوئی اور بنیامین کو روکنے کا شرعی جواز پیدا ہو گیا۔
---
بھائیوں کا رویہ اور الزام تراشی
جب بنیامین کے سامان سے برتن نکلا تو باقی بھائیوں نے فوراً کہا:
> "اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو تعجب نہیں، اس کا بھائی یوسف بھی پہلے چوری کر چکا ہے۔"
یہ الزام دراصل ایک پرانا قصہ دہرانا تھا:
یوسف علیہ السلام کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کی پرورش پھوپھی کے پاس ہوئی۔
پھوپھی انہیں اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے ایک چال چلی:
اپنے قیمتی پٹکے کو یوسف کے کپڑوں میں باندھ دیا۔
پھر اعلان کیا کہ "میرا پٹکا چوری ہو گیا ہے۔"
تلاشی کے بعد جب وہ یوسف کے پاس سے ملا تو شرعی حکم کے مطابق یوسف کو پھوپھی کے پاس روک لیا گیا۔
یہی واقعہ "یوسف کی چوری" کے طور پر مشہور ہو گیا، حالانکہ حقیقت میں یہ محض ایک تدبیر تھی، نہ کہ اصل چوری۔
---
یوسف علیہ السلام کا صبر اور خاموشی
جب بھائیوں نے یہ الزام دہرا کر کہا کہ "یوسف بھی چوری کر چکا ہے"، تو یوسف علیہ السلام کے دل پر گہرا صدمہ ہوا۔
لیکن انہوں نے ضبط کیا، غصہ پی گئے، اور دل میں کہا:
> "یہ تمہاری بری جگہ ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، اور اللہ حقیقت کو خوب جانتا ہے۔"
یوسف علیہ السلام نے حقیقت ظاہر نہیں کی اور خاموشی اختیار کی، کیونکہ یہ سب کچھ اللہ کی حکمت کے مطابق ہو رہا تھا۔
---
حصہ ہشتم کے اہم سوالات (FAQ)
سوال 1: صواع الملک کیا تھا؟
جواب: ایک قیمتی برتن جو شاہی پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، ممکن ہے سونے یا چاندی کا ہو۔
سوال 2: یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے کیا تدبیر کی؟
جواب: انہوں نے شاہی پیمانہ بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا تاکہ قانون کے مطابق اسے روک سکیں۔
سوال 3: بھائیوں نے یوسف علیہ السلام پر "چوری" کا الزام کیوں لگایا؟
جواب: بچپن میں پھوپھی نے ایک تدبیر سے یوسف کو اپنے پاس رکھا تھا، جسے غلط طور پر چوری کا واقعہ بنا کر پیش کیا گیا۔
سوال 4: یوسف علیہ السلام نے الزام سن کر کیا ردعمل دیا؟
جواب: انہوں نے غصہ ضبط کیا اور حقیقت ظاہر نہ کی، کیونکہ یہ سب اللہ کی حکمت کا حصہ تھا۔
---
نتیجہ
حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے شاہی پیمانہ ان کے سامان میں رکھوا دیا۔ تلاشی کے بعد برتن برآمد ہوا اور بھائیوں نے بنیامین پر الزام لگایا، بلکہ یوسف پر بھی پرانی "چوری" کی بات دہرا دی۔ یہ سب اللہ کی حکمت کے مطابق ہوا۔
--آپ نے مطالعہ کیا
حضرت یوسف علیہ السلام، بنیامین کا واقعہ، صواع الملک، سقایہ، یوسف کی حکمت عملی، بھائیوں کا الزام، قیمتی برتن، تفسیر قرطبی، پھوپھی کا واقعہ۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں