Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

پیر، 19 دسمبر، 2022

حضرت داؤد علیہ السلام نبوت اور بادشاہت ایک ساتھ ملنا



حضرت داؤد علیہ السلام پر تفصیلی بلاگ: جالوت پر فتح، زبور، عبادت، انصاف اور ان کی حکومت۔ ان کی زندگی آج بھی انسانیت کے لیے رہنمائی ہے۔


 ---


حضرت داؤد علیہ السلام: اللہ کے نبی، عادل بادشاہ اور زبور کے حامل


حضرت داؤد علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اور عظیم بادشاہ تھے۔ آپ کو اللہ نے نہ صرف نبوت عطا فرمائی بلکہ ایک مضبوط و انصاف پسند حکمران بھی بنایا۔ قرآن و حدیث میں حضرت داؤد علیہ السلام کی شخصیت کو عبادت، شکر گزاری، انصاف اور بہادری کی روشن مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔


---

حضرت داؤد علیہ السلام کا پس منظر اور ابتدائی زندگی


حضرت داؤد علیہ السلام کا تعلق بنی اسرائیل کے قبیلہ "یہوداہ" سے تھا۔ آپ کے والد کا نام "یسیٰ" تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم مقام عطا فرمایا اور آپ کے ذریعے بنی اسرائیل کو دشمنوں پر غلبہ عطا کیا۔


---

جالوت کے ساتھ جنگ اور فتح


حضرت داؤد علیہ السلام کی سب سے مشہور ابتدائی جدوجہد جالوت کے خلاف جنگ ہے۔

بنی اسرائیل جالوت کی فوج سے ڈر گئے تھے۔

حضرت داؤد علیہ السلام نوجوان تھے لیکن انہوں نے اللہ پر بھروسہ کر کے جالوت کو غلیل (گوپھن) کے پتھر سے مار گرایا۔

اللہ نے اس کے بعد انہیں عزت، مقام اور بادشاہت عطا کی۔


قرآن میں ذکر ہے:
"پس داؤد نے جالوت کو قتل کیا اور اللہ نے اسے بادشاہت اور حکمت عطا کی اور جس علم کا چاہا سکھایا۔"
(سورہ بقرہ: 251)


---

حضرت داؤد علیہ السلام کو عطا کیے گئے معجزات


اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو کئی عظیم معجزات عطا کیے:


1. زبور کی کتاب


حضرت داؤد علیہ السلام کو "زبور" دی گئی جو ذکر و دعا اور اللہ کی حمد و ثنا پر مشتمل تھی۔

2. خوش الحانی اور ذکرِ الٰہی


اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت خوبصورت آواز عطا کی۔ جب آپ اللہ کی حمد و ثنا کرتے تو پرندے اور پہاڑ بھی تسبیح میں شامل ہو جاتے۔

3. لوہے کو نرم کرنے کی صلاحیت


قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا تاکہ وہ زرہیں اور اسلحہ بنا سکیں۔

4. انصاف کرنے کی صلاحیت


آپ کو اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کی قوت عطا فرمائی تھی۔ آپ کے فیصلے حکمت اور انصاف پر مبنی ہوتے تھے۔


---

حضرت داؤد علیہ السلام کی عبادت اور ریاضت


آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو تہجد پڑھتے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"سب سے بہترین روزہ داؤد کا روزہ ہے کہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے۔"
(بخاری و مسلم)

آپ عبادت اور زہد میں امت کے لیے بہترین نمونہ تھے۔



---

حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت اور انصاف


حضرت داؤد علیہ السلام ایک مثالی حکمران تھے۔ ان کی حکومت میں عدل و انصاف قائم تھا۔

آپ کے فیصلے قرآن میں بیان کیے گئے ہیں، جن سے ان کی حکمت و بصیرت ظاہر ہوتی ہے۔

بنی اسرائیل ان کے دور میں امن و سکون کی زندگی گزارتے تھے۔



---

حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات


حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات تقریباً 70 سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت اور نبوت عطا کی۔


---

حضرت داؤد علیہ السلام کی زندگی سے اسباق


اللہ پر توکل انسان کو بڑے دشمن پر بھی غالب کر دیتا ہے۔

عدل و انصاف حکومت کی اصل بنیاد ہے۔

عبادت اور دنیاوی ذمہ داریوں کو ساتھ لے کر چلنا بہترین زندگی ہے۔

اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔



---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت داؤد علیہ السلام کو کون سی آسمانی کتاب دی گئی؟

جواب: زبور۔

سوال 2: حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو کس طرح شکست دی؟

جواب: ایک پتھر سے مار کر۔

سوال 3: حضرت داؤد علیہ السلام کی سب سے مشہور عبادت کون سی تھی؟

جواب: ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن چھوڑنا (داؤدی روزہ)۔

سوال 4: حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد ان کا جانشین کون تھا؟

جواب: ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام۔


---

نتیجہ


حضرت داؤد علیہ السلام کی زندگی بہادری، عبادت، انصاف اور حکمت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ ایک نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مثالی بادشاہ بھی تھے۔ ان کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایمان، عبادت اور عدل ہی ایک کامیاب زندگی اور معاشرے کی بنیاد ہیں۔


حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت داؤد کے معجزات، زبور کی کتاب، داؤد کا روزہ، جالوت اور داؤد، قرآن میں داؤد علیہ السلام


جمعرات، 15 دسمبر، 2022

حضرت نوح علیہ السلام کا دور مبارک

 




حضرت نوح علیہ السلام کی زندگی، 950 سال کی دعوت، قوم کا انکار، کشتی نوح، طوفان اور اسباق پر تفصیلی بلاگ۔ سوالات و جوابات کے ساتھ پڑھیں۔



حضرت نوح علیہ السلام کی سیرت: ایک تعارف


حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے جنہیں "اولوالعزم انبیاء" میں شامل کیا جاتا ہے۔ آپ کی بعثت ایک ایسی قوم کی طرف ہوئی جو شرک، بت پرستی اور اخلاقی بگاڑ میں مبتلا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کو توحید اور اللہ کی عبادت کی دعوت دینے کے لیے بھیجا۔


---

حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت


حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ۹۵۰ سال تک مسلسل اللہ کی طرف بلایا۔ آپ کی دعوت کے بنیادی نکات یہ تھے:

اللہ کو واحد معبود ماننا۔

بت پرستی اور شرک سے اجتناب کرنا۔

نیک اعمال اپنانا اور گناہوں سے بچنا۔

اللہ کی رحمت اور مغفرت کی امید رکھنا۔


قرآن کریم میں آتا ہے:
"بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، تو اس نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔" (سورۃ الاعراف: 59)


---

قوم کا رویہ اور انکار


قومِ نوح نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے بجائے سخت مخالفت کی۔ انہوں نے آپ کا مذاق اُڑایا، آپ کو جادوگر اور جھوٹا کہا۔ صرف چند لوگ ہی آپ پر ایمان لائے۔


---

کشتی کی تیاری اور طوفان


جب قوم نے انکار میں حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ ایک بڑی کشتی تیار کریں۔

مومنین اور جانوروں کے جوڑے کشتی میں سوار ہوئے۔

ایک عظیم طوفان آیا جس میں کفار غرق ہو گئے۔

کشتی "جودی پہاڑ" پر آ کر ٹھہری۔



---

حضرت نوح علیہ السلام کی دعا


حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے لیے دعا کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ اہلِ ایمان میں شامل نہیں۔ اس واقعے نے یہ واضح کر دیا کہ ایمان نسبت پر نہیں بلکہ اعمال پر ہے۔


---

حضرت نوح علیہ السلام سے حاصل ہونے والے اسباق


1. صبر و استقامت کی اعلیٰ مثال۔


2. ایمان کا تعلق صرف عقیدہ اور اعمال سے ہے۔


3. اللہ کی رحمت ایمان والوں کے لیے ہے۔


4. نافرمانی اور شرک اللہ کے غضب کا سبب ہے۔




---

❓ سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے کتنے سال دعوت کا انکار کیا؟


جواب: حضرت نوح علیہ السلام نے 950 سال دعوت دی، لیکن قوم نے انکار کیا۔

سوال 2: کشتی نوح کہاں آ کر ٹھہری؟


جواب: قرآن کے مطابق کشتی "جودی پہاڑ" پر آ کر ٹھہری۔

سوال 3: حضرت نوح علیہ السلام کے کتنے بیٹے تھے؟


جواب: آپ کے چار بیٹے تھے: سام، حام، یافث اور کنعان۔ کنعان طوفان میں غرق ہو گیا کیونکہ اس نے ایمان قبول نہ کیا۔

سوال 4: حضرت نوح علیہ السلام سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟


جواب: صبر، استقامت، اللہ پر ایمان اور شرک سے اجتناب۔


حضرت نوح علیہ السلام

کشتی نوح

حضرت نوح کا طوفان

حضرت نوح کی قوم

حضرت نوح کے اسباق

انبیاء کی سیرت


منگل، 29 نومبر، 2022

حضرت آدم علیہ السلام اور انسان کی تخلیق


حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق، جنت میں آزمائش، زمین پر خلافت، ابلیس کا انکار اور اسباق پر مکمل بلاگ۔ سوالات و جوابات کے ساتھ۔


حضرت آدم علیہ السلام

حضرت آدم کی تخلیق

حضرت آدم اور جنت

حضرت آدم کی دعا

پہلا انسان حضرت آدم

انبیاء کی سیرت


 

حضرت آدم علیہ السلام

خلیفۃ اللہ فی الارض


حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان اور نبی بنا کر تخلیق فرمایا۔ آپ کو "ابو البشر" کہا جاتا ہے کیونکہ پوری انسانیت کی نسل آپ سے شروع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مٹی سے بنایا اور پھر اپنی روح پھونکی، جس سے آپ کو زندگی ملی۔


---

حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق


اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے اعلان فرمایا کہ وہ زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہے۔ فرشتوں نے عرض کیا:
"کیا تو اس میں ایسے کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟"
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔" (سورۃ البقرہ: 30)

اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا اور چیزوں کے نام سکھائے، جس پر فرشتے بھی عاجز آ گئے۔


---

فرشتوں کا سجدہ اور ابلیس کا انکار


اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ سب فرشتوں نے حکم بجا لایا مگر ابلیس نے تکبر کیا اور انکار کر دیا۔ یہی انکار اس کے لعنتی اور شیطان قرار پانے کا سبب بنا۔


---

حضرت آدم علیہ السلام اور جنت کی آزمائش


اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو جنت میں سکونت عطا کی اور ہر نعمت سے فائدہ پر اٹھانے کی اجازت دی، سوائے ایک درخت کے۔
شیطان نے بہکا کر دونوں کو درخت کا پھل کھلایا، جس پر وہ جنت سے زمین پر بھیج دیے گئے۔


---

زمیں پر زندگی کی ابتدا


اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔

کھیتی باڑی اور محنت سے روزی کمانا سکھایا۔

شریعت اور ہدایت دی تاکہ انسان سیدھے راستے پر چلے۔

حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ سے معافی مانگی، اور اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔


قرآن میں دعا درج ہے:
"اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔" (سورۃ الاعراف: 23)


---

حضرت آدم علیہ السلام سے حاصل ہونے والے اسباق


1. تکبر انسان کو شیطان کی صف میں شامل کر دیتا ہے۔


2. توبہ اور رجوع کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔


3. انسان کا اصل مقام زمین پر خلافت ہے، لہٰذا اسے ذمہ داری کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے۔


4. دنیا آزمائش کی جگہ ہے، اصل کامیابی آخرت میں ہے۔




---

❓ سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت آدم علیہ السلام کو کس چیز سے بنایا گیا؟


جواب: حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق کیا گیا۔

سوال 2: ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟


جواب: ابلیس نے تکبر کیا اور کہا کہ "میں آگ سے بنایا گیا ہوں اور آدم مٹی سے ہیں، اس لیے میں افضل ہوں۔"

سوال 3: حضرت آدم علیہ السلام کو کس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا؟


جواب: قرآن میں درخت کا نام نہیں بتایا گیا، صرف اتنا ذکر ہے کہ ایک خاص درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔

سوال 4: حضرت آدم علیہ السلام کی دعا کیا تھی؟


جواب: "اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور 

نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔" (سورۃ الاعراف: 23)

اتوار، 20 نومبر، 2022

رشتہ ازدواج کی تلخیاں اور قرآن کریم کا فیصلہ



"اسلام میں رشتہ ازدواج محبت، سکون اور ذمہ داری کا نام ہے۔ میاں بیوی کے باہمی حقوق و فرائض قرآن و سنت میں واضح بیان کیے گئے ہیں۔ اس بلاگ میں میاں بیوی کے حقوق اور ان کے تعلقات کو بہتر بنانے کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔"







رشتہ ازواج اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے 




اللہ تبارک و تعالی نے دنیا جو سب سے پہلے رشتہ بنایا تھا وہ میاں بیوی کا رشتہ ہے پھر باقی سب رشتے بنے تھے اللہ تعالی نے عورت کو مرد کی پسلی سے بنایا ہے اور سب سے پہلے  اماں حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے بنایا ہے ایک عورت جو کہ تیڑھی پسلی سے بنی ہے اس کے مزاج  اور طبیت میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے  شوہر کو بھی چاہیئے کہ وہ اس کے مزاج اور طبیت کو سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھائے اور احادیث مبارک صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی یہ بات واضح کی گئی ہے کہ عورت کو تیڑھی پسلی سے بنایا   ہے پس تم ایسے ہی فائدہ اٹھاواور اسے اپنے مطابق سیدھا مت کرو ورنہ وہ ٹوٹ جائے گی اور ایسا کرنے کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں دی گئی میاں بیوی کا رشتہ بہت ہی سچا پاک اور خوبصورت رشتہ ہے اس رشتے کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اپنی نشانیوں میں سے کہا کہ کسی طرح سے اس رشتے سے نسل در نسل آغاز کرتا ہے یہ رشتہ ہے تو ایسا ہی کہ کبھی دھوپ تو کبھی چھاوں کبھی خوشیاں تو کبھی پریشانیاں کبھی الفت تو کبھی تلخی  میاں بیوی کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے تا دونوں ہی ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی اچھائیوں اور خامیوں کے ساتھ اپنائیں البتہ شوہر کو ایک درجہ  بلند کیا کیونکہ وہ عورت کا اور بچوں کا کفیل ہے ان کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنا شوہر کے ذمے ہے

میاں بیوی کے رشتے کی تلخیوں کی حدود قرآن مجید کی روشنی میں 

 
میاں بیوی کے رشتے میں عموما لڑائی جھگڑے اور تلخیاں یا ایسے کہیں کہ تلخ کلامیاں ہوتی رہتی ہیں جہاں شوہر اکثر اپنی بیوی کو آپنی ماں سے مشابہت دے دیتا ہے اور کبھی بیوی نازیبا الفاظ استعمال کرتی ہے شوہر غصے میں بھی بیوی کو آپنی ماں سے مشابہت نہیں دے سکتا کیونکہ اس سے نکاح ٹوٹنے کا خطرہ ہے جن کی اسلام میں قرآن کریم میں کئی جگہ پر ممانعت کی گئی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ


میاں بیوی  اکثر غصے کی حالت میں ایک دوسرے کو بہت کچھ کہہ دیتے ہیں جیسا کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے میاں اپنی ہی بیوی کو  اپنی ماں کی جگہ کہے( یا بیوی  اپنے شوہر  کو باپ کی جگہ  کہے) تو ہی بہت ہی غلط ہے جس کی قرآن کریم ممانعت کرتا اللہ تعالی سے فورا معافی مانگے اور اس کے احکامات پر عمل کرے اور وہ احکامات  یہ ہیں 
اور غلام آزاد کرنا چونکہ موجودہ دور میں نہ صرف مشکل  بلکہ ناممکن بھی ہے اور جس کے لئے یہ ممکن نہیں وہ ان احکامات پر عمل کرے 

ایک خوبصورت دعا 



اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تمام میاں بیوی میں   محبتوں  اور رحمتوں کو بڑھائے رکھے اور سب کے گھروں میں خیرو برکت بنائے رکھے   آمین  

---

💍 رشتہ ازدواج: میاں بیوی کے حقوق اور ذمہ داریاں



---

✨ نکاح: ایک مقدس معاہدہ


اسلام میں نکاح محض دنیاوی تعلق نہیں بلکہ ایک مقدس اور مضبوط عہد ہے جو محبت، عزت، اعتماد اور ذمہ داری پر قائم ہوتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:

"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔"
(سورۃ الروم: 21)

یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ازدواجی رشتہ سکون، محبت اور رحمت کا ذریعہ ہے۔


---

👨 میاں کے حقوق اور ذمہ داریاں


1. نان و نفقہ (اخراجات کی ذمہ داری)


بیوی کے کھانے، کپڑے، علاج اور رہائش کی مکمل ذمہ داری شوہر پر ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا:
"اور مردوں پر عورتوں کا خرچ ہے۔" (سورۃ البقرہ: 233)

2. عزت و احترام


شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ نرمی، عزت اور حسنِ سلوک سے پیش آئے۔

3. حسن معاشرت


نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔" (ترمذی)

4. اعتماد اور حفاظت


شوہر اپنی بیوی کی عزت، عفت اور عزتِ نفس کا محافظ ہے۔


---

👩 بیوی کے حقوق اور ذمہ داریاں


1. اطاعت شوہر


بیوی پر لازم ہے کہ وہ جائز امور میں شوہر کی اطاعت کرے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"اگر عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت میں داخل ہو گی۔" (مسند احمد)

2. شوہر کا ادب اور احترام


بیوی کو اپنے شوہر کے مقام اور حیثیت کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ عزت و محبت کا سلوک کرنا چاہیے۔

3. گھریلو ذمہ داریاں


گھر کے معاملات اور بچوں کی تربیت میں بیوی کا کردار بنیادی ہے۔

4. شوہر کے مال کی حفاظت


بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال، عزت اور گھر کی حفاظت کرے۔


---

🌹 میاں بیوی کے باہمی حقوق


1. محبت اور رحمت: دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون اور محبت کا ذریعہ ہوں۔


2. حسنِ سلوک: باہمی احترام اور نرمی اختیار کریں۔


3. مشاورت: گھریلو فیصلوں میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔


4. رازداری: ایک دوسرے کے راز کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں۔


5. صبر و برداشت: رشتہ ازدواج صبر اور ایثار کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔




---

❓ سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: میاں بیوی کے درمیان سب سے اہم حق کیا ہے؟


جواب: سب سے اہم حق باہمی عزت، محبت اور نرمی ہے، کیونکہ یہی رشتے کی بنیاد ہے۔

سوال 2: کیا بیوی کے اخراجات شوہر پر فرض ہیں؟


جواب: جی ہاں، نان و نفقہ شوہر پر فرض ہے خواہ بیوی مالدار ہو یا غریب۔

سوال 3: اگر شوہر سخت مزاج ہو تو بیوی کیا کرے؟


جواب: بیوی کو صبر، حکمت اور نرمی کے ساتھ معاملات حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ صبر اور دعا سے حالات بہتر ہوتے ہیں۔

سوال 4: کیا بیوی شوہر کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر خرچ کر سکتی ہے؟


جواب: نہیں، بغیر اجازت خرچ کرنا جائز نہیں، سوائے معمولی گھریلو اخراجات کے۔


---رشتہ ازدواج

میاں بیوی کے حقوق

ازدواجی زندگی اسلام میں

نکاح کی اہمیت

شوہر کے حقوق

بیوی کے حقوق

اسلام میں ازدواجی تعلقات


جمعہ، 18 نومبر، 2022

واقعہ شب معراج نماز کی فرضیت

"واقعہ شب معراج نبی کریم ﷺ کا عظیم معجزہ ہے جس میں آپ ﷺ کو بیت المقدس سے آسمانوں تک سیر کرائی گئی۔ اس سفر کا سب سے بڑا تحفہ امت کے لیے پانچ وقت کی نماز ہے۔ اس بلاگ میں واقعہ معراج کی تفصیل، اہمیت اور سوالات و جوابات شامل ہیں۔"


شب معراج کے واقعے کی تفصیل 

 
شب معراج کا واقعہ اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے یہ  واقعہ ماہ رجب کی 27 تاریخ کو پیش آیا اس  واقعہ   


کا ذکر  قرآن کریم میں بھی ہے ارشاد باری تعالی ہے
اس مبارک سفر کو قرآن کریم میں  معراج کا نام دیا  گیا ماہ رجب کی 27 تاریخ کو حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے بیدار کیا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا پیغام دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے  اور وضو کیا اور اپنے گھر سے باہر تشریف لے آئے قارئین   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے بیان کی کہ جبریل امین علیہ السلام مجھے  براق پر سوار کر کے بیت اللہ سے بیت المقدس کی طرف لے گئےاور براق کی رفتار اتنی تھی کہ جہاں براق کی نظر پڑتی تو اسی لمحے اس کا قدم وہیں ہوتا یعنی جب اس نے آسمان کی جانب دیکھا اور اڑنا  شروع کیا تو اس کا قدم آسمان پر پڑا سفر کے بیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں کہ اس سارے سفر میں جبریل امین علیہ السلام میرے ساتھ رہے بیت اللہ سے بیت المقدس جاتے وقت راستے میں کئی  مقامات پر اور مختلف جگہوں پر مختلف واقعات رونما ہوئے  سب سے پہلے  ایک مقام حضرت جبریل علیہ السلام  رکے مجھے بھی براق سے اترنے کو کہا  میں نے دیکھا وہاں کثرت سے کھجوروں کے درخت ہیں پھر کہا اے اللہ کے حبیب  یہاں دو رکعت نفل  ادا کر لیں لہذا میں نے ایسا ہی کیا جب میں نے نماز ادا کر لی تو جبریل امین علیہ نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ جانتے ہیں یہ کون سی جگہ ہے  میں نے فرمایا نہیں تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا  یہ  یثرب کا علاقہ ہے یہ وہ جگہ ہے جو بعد میں مدینہ کہلاے گا اور یہ وہ مقام ہے کہ جب مکہ کہ لوگوںکو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے تو مکہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایئں  گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف لے آئیں گے   پھر وہاں سے ہم روانہ ہو گئے  ابھی تھوڑا سا آگے بڑھے تھےکہ کہ ایک اور مقام پر  براق کو زمین پر اتارا اور کہا اے پیغمبر خدا یہاں بھی دو نفل ادا کریں میں نے وہاں بھی دو رکعت نماز  پڑھی  پھر جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا یہ وادی سینہ ہےاور یہ شجر موسی ہے یہی وہ مقام ہے جہاں موسی علیہ السلام اللہ تعالی سے کلام فرمایا کرتے تھے اور  یہی انھیں نبوت عطا کی گئی  اس کے بعد ہم آگئے چل پڑے   اور مدینےکی کے علاقے میں اترے اور حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہاں بھی دو رکعت نفل ادا کر یں تو میں نے وہاں بھی دو رکعت نفل ادا  کئیے  اور جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا یہ شعیب علیہ السلام کا علاقہ ہے اور پھر آگے چل دیے اس کے بعد تھوڑا دور ایک اور مقام پر رکے جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہاں بھی دو رکعت نفل ادا کر لیں لہذا میں نے وہاں بھی دو رکعت نفل ادا کیے جبریل علیہ السلام نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ ہے یہ کون سا علاقہ ہے یہ وہ مقام ہے جہاں   حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی  یہ بہت مبارک مقام ہے کیونکہ  حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اپنےآپ میں ایک عظیم اشان معجزہ ہے  راستے میں عجائبات جاری تھے اور ہم آگئے بڑھتے گئے  راستے میں مجھے ایک بڑھیا نے آواز دی اس پر جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کچھ جواب نہ دیں اور آگئے  بڑھیں میں نے کوئی جواب نہ دیا اور آگئے  بڑھ گیا  آگئے جا کر مجھے ایک بوڑھے ماں آدمی نے آواز دی  اس پر جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا آپ اسے بھی جواب نہ دیں اور آگئے بڑھیں میں نے کوئی جواب نہ دیا اور آگئے بڑھ گیا  آگئے چل کر جبریل امین علیہ السلام نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں یہ  بوڑھے  لوگ کون تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تو جبریل امین علیہ السلام  نے فرمایا یہ  بوڑھی عورت  دنیا تھی  جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے رہی تھی  یہ دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف پکار رہی تھی میں نے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینے منع کیا اگر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کو جواب دے دیتے  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس دنیا کی طرف متوجہ ہوجاتی  اور دنیا کی محبت میں کھو جاتی لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہیں دیا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس کی محبت سے محفوظ رہے گی اور وہ بوڑھا شخص  ابلیس تھا وہ آپ کو آواز دے رہا تھا لہذا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی جواب نہ دیا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس کے شر سے محفوظ رہے گی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل امین علیہ السلام بیت المقدس  تک پہنچ گئے وہاں  حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا وہاں باقی تمام  انبیاء کرام اور نبی موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں دو رکعت نفل نماز امامت کے ساتھ پڑھائی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل امین علیہ السلام وہاں سے چلے گئے اور  پہلے آسمان پر پہنچے جب پہلے آسمان پر پہنچے تو جبریل امین علیہ السلام نے آسمان کے د اروغہ سے کہا کھولو اس نے پوچھا کون ہے جواب  دیا جبریل امین علیہ السلام پھر اس نے پوچھا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے انھوں نے کہا ہاں پوچھا گیا کون   تو فرمایا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں د اروغہ نے کہا کیا انھیں لانے کے لیے آپ سے کہا گیا تھا  تو جبریل علیہ السلام نے کہا  جی ہاں  پھر  دروازہ کھولا  گیا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے  وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے دیکھا اس کے دہانی طرف کچھ لوگوں  کے جھنڈ موجود تھے  اس طرح اس کی باہنی طرف بھی کچھ جھنڈ موجود تھے وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو پڑتے انھوں نے جب میری طرف دیکھا تو بولے آو اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے  میں نے جبریل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں  تو انھوں نے بتایا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے دائیں  اور بائیں جانب انکے  بیٹوں کی روحیں ہیں  دائیں جانب نیک روحیں ہیں جبکہ بائیں جانب دوزخ روحیں ہیں اس لیے جب یے دائیں جانب دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو پڑتے ہیں اس کے بعد  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور جبریل امین علیہ السلام دوسرے آسمان کی طرف چل پڑے جب دوسرے آسمان پر پہنچے تو اس کے د اروغہ نے بھی پہلے آسمان کی طرح ہی پوچھا غرض یہ کہ اس طرح سے آپ نے جبریل علیہ السلام کے ساتھ باقی آسمانوں تک کا سفر  طے کیا آپ نے وہاں حضرت  آدم  ،حضرت ادریس، حضرت موسی،  حضرت عیسی  اور حضرت ابراہیم  علیہ السلام کو پایا اس بعد جبریل علیہ السلام  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بلند مقام  پر لے کر  پہنچے جہاں سے انھیں قلم کے لکھنے کی آواز آنے لگی اس سے آگے کا سفر سدرہ المنتہی کا تھا جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا اس سے آگے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے ہی جانا ہے  چنانچہ اس سے آگے کا سفر آپ نے اکیلے ہی کیا  اور اپنے رب سے ملاقات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اس وقت  50 نمازیں  فرض  گئی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس لوٹے  تو حضرت  موسی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کے آپ کی امت پر کیا فرض کیا گیا ہے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا 50 نمازیں  فرض کی ہیں  حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے پاس جائیں اور اس کا کچھ حصہ معاف کر وائیں استعمال کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی  چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گئے تو اس میں سے ایک حصہ معاف کر دیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آے اور بتا یا کہ ایک حصہ معاف کر دیا گیا ہے اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنے رب کے پاس جائیں اور اس کا کچھ حصہ مزید کم کو وائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اسکی بھی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنے رب کے پاس گئے پھر اس کا کچھ حصہ کم کر دیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آے اور بتایا کہ مزید حصہ معاف کر دیا گیا ہے اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنے رب کے پاس جائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گئے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر 5 نمازیں فرض کی گئی ہیں اور اس کا ثواب 50 نمازوں کے برابر ہوگا  باخوشی واپس آگئے  اور حضرت موسی علیہ السلام کو آگاہ کر دیا اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام کے ہمراہ واپس زمین پر اترے  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ویسے ہی گرم تھا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  چھوڑا تھا یوں معراج کا سفر چند لمحوں میں گزر جانا بھی 

ایک معجزہ  تھا   



🌙 واقعہ شب معراج اور نماز کا تحفہ



---

✨ معراج النبی ﷺ کا تعارف


شب معراج کا واقعہ اسلام کی تاریخ کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہ وہ رات تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں تک سیر کرائی۔ اس سفر کو "اسراء و معراج" کہا جاتا ہے۔ یہ سفر محض جسمانی نہیں بلکہ روحانی عظمت اور رب کے قرب کی علامت بھی تھا۔


---

🕋 سفر اسراء: مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک


اس عظیم سفر کی ابتدا مسجد حرام (کعبۃ اللہ) سے ہوئی، جہاں نبی کریم ﷺ کو براق پر سوار کرایا گیا۔ براق ایک نورانی سواری تھی جو روشنی کی طرح تیز رفتار تھی۔ آپ ﷺ بیت المقدس پہنچے اور وہاں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ نبوت کا سلسلہ آپ ﷺ پر مکمل ہوا۔


---

☁️ معراج: آسمانوں کی سیر


بیت المقدس سے نبی کریم ﷺ کو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ ہر آسمان پر مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی، جیسے:

پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام

دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام

تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام

چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام

پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام

چھٹے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام

ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام


یہ ملاقاتیں اس سفر کی روحانی عظمت کو واضح کرتی ہیں۔


---

🕊️ سدرۃ المنتہیٰ اور قرب الٰہی


نبی کریم ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، جہاں حضرت جبریل علیہ السلام بھی آگے نہ جا سکے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے براہِ راست کلام فرمایا اور انہیں قربِ خاص عطا کیا۔


---

🕌 نماز کا تحفہ


شبِ معراج کا سب سے عظیم تحفہ نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدی ﷺ کے لیے نماز فرض کی۔ شروع میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر نبی کریم ﷺ نے بار بار عرض کیا اور آخر کار پانچ نمازیں فرض ہوئیں، مگر ثواب پچاس نمازوں کا رکھا گیا۔


---

🌟 نماز کی اہمیت


نماز اسلام کا ستون ہے، اور یہی بندے اور رب کے درمیان براہِ راست رابطہ ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
"نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔" (سورۃ العنکبوت: 45)


---

❓ سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: شب معراج کب پیش آیا؟


جواب: یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا، بیشتر مورخین کے مطابق رجب کی 27 ویں شب کو۔

سوال 2: معراج النبی ﷺ کا سب سے بڑا تحفہ کیا تھا؟


جواب: سب سے بڑا تحفہ پانچ وقت کی نماز ہے۔

سوال 3: نبی کریم ﷺ نے معراج میں کس کس نبی سے ملاقات کی؟


جواب: آپ ﷺ نے حضرت آدم، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات کی۔

سوال 4: معراج جسمانی تھی یا روحانی؟


جواب: جمہور علماء کے نزدیک معراج جسم و روح دونوں کے ساتھ ہوئی، جو نبی کریم ﷺ کا عظیم معجزہ ہے۔

اتوار، 13 نومبر، 2022

حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ




حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امین الامت ہیں۔ آپ نے اسلام کی خاطر بے مثال قربانیاں دیں اور شام کی فتوحات میں عظیم کردار ادا کیا
---

حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ – امین الامت


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے عظیم صحابہ کرام میں سے ہیں۔ آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے، یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ”امین الامت“ (امت کا امانت دار) کا لقب عطا فرمایا۔


---

پیدائش اور خاندان


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام عامر بن عبداللہ تھا۔

آپ مکہ مکرمہ میں قریش کے قبیلہ فہر میں پیدا ہوئے۔

آپ کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام امیمہ بنت غنم تھا۔

آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے نسب کے اعتبار سے نویں پشت پر جا ملتے ہیں۔



---

قبول اسلام


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ ابتدائی دور میں ہی اسلام لے آئے۔

آپ کا شمار ان دس افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

آپ نے کفار مکہ کی سختیوں کو برداشت کیا لیکن دین پر قائم رہے۔



---

ہجرت اور جہاد میں کردار


آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

جنگ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے۔

جنگ بدر کے دوران آپ اپنے والد کے مقابلے میں آئے جو کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ آپ نے اسلام کی خاطر اپنے والد کے خلاف لڑائی کی۔ یہ اسلام پر آپ کے غیر متزلزل ایمان کی دلیل تھی۔



---

حضرت عبیدہ بن الجراح کا کردار


آپ ایک نہایت دیانتدار، ایماندار اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔

آپ کو امین الامت کا خطاب ملا، کیونکہ آپ کی سچائی اور امانت داری بے مثال تھی۔

آپ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں اسلامی لشکروں کی قیادت کرتے رہے۔



---

شام کی فتوحات میں کردار


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔

آپ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کی فوجوں کا سپہ سالار مقرر کیا۔

آپ نے بیت المقدس کی فتح میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اہل روم کو بارہا شکست دی۔



---

وفات


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ 18 ہجری میں شام میں طاعون عمواس کی وبا کے دوران شہید ہوئے۔

وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً 58 برس تھی۔

آپ کی وفات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
”کاش عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلافت کے لیے منتخب کرتا۔“



---

سوالات و جوابات


سوال 1: حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام کیا تھا؟

جواب: ان کا اصل نام عامر بن عبداللہ تھا۔

سوال 2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن الجراح کو کیا لقب دیا؟

جواب: آپ کو "امین الامت" یعنی امت کا امانت دار کا لقب دیا گیا۔

سوال 3: حضرت عبیدہ بن الجراح کس بڑی وبا میں شہید ہوئے؟

جواب: آپ شام میں طاعون عمواس کے دوران شہید ہوئے۔

سوال 4: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے بارے میں کیا فرمایا؟

جواب: انہوں نے فرمایا کہ اگر عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلافت کے لیے منتخب کرتا۔

سوال 5: حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کو کن صحابہ کرام میں شمار کیا جاتا ہے؟

جواب: آپ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔


حضرت عبیدہ بن الجراح

امین الامت

عشرہ مبشرہ صحابہ

شام کی فتوحات

طاعون عمواس

عبیدہ بن الجراح کا لقب

حضرت عبیدہ بن الجراح کی قربانیاں

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ کے عظیم صحابی تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی۔ آپ کی زندگی ایمان، قربانی اور جہاد سے عبارت ہے۔







حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ – عشرہ مبشرہ کے خوش نصیب صحابی


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ کے ان خوش بخت صحابہ کرام میں شامل ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ایمان، ثابت قدمی اور جہاد فی سبیل اللہ میں بہادری کی وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔


---

ابتدائی زندگی اور خاندان


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ عدی سے تھا۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کا نام زید بن عمرو اور والدہ کا نام فاطمہ بنت بعجہ تھا۔

آپ کے والد حضرت زید اسلام سے قبل ہی توحید کے قائل تھے اور بت پرستی سے دور رہتے تھے۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا سے ہوا، اس طرح آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بہنوئی تھے۔



---

قبول اسلام


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ ابتدائی دور میں ہی اسلام لے آئے تھے۔

آپ ان دس خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

آپ کی بیوی حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا بھی ایمان لے آئیں۔

جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس واقعے میں حضرت سعید اور ان کی اہلیہ کا اہم کردار تھا۔



---

ہجرت اور جہاد میں کردار


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

آپ بدر کی لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے شریک نہ ہو سکے، کیونکہ آپ کسی اور مشن پر بھیجے گئے تھے۔ لیکن آپ کو اس کا پورا اجر دیا گیا۔

اس کے بعد احد، خندق اور دیگر غزوات میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ اسلامی فتوحات میں بھی شریک رہے اور اپنی بہادری کا لوہا منوایا۔



---

عبادت اور زہد


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ عبادت گزار، سادہ مزاج اور متقی صحابی تھے۔

دنیاوی مال و دولت سے زیادہ دین کو ترجیح دیتے تھے۔

اکثر قرآن کی تلاوت اور ذکر الہی میں مشغول رہتے۔



---

جنت کی بشارت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان دس صحابہ میں شامل فرمایا جنہیں دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دی گئی۔ یہ آپ کی نیک سیرت اور عظیم قربانیوں کا ثبوت ہے۔


---

وفات


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات 51 ہجری میں تقریباً 70 سال کی عمر میں ہوئی۔

آپ کو مدینہ منورہ کے مضافات میں دفن کیا گیا۔

مسلمانوں نے آپ کی وفات پر گہرا غم محسوس کیا۔



---

سوالات و جوابات


سوال 1: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے؟

جواب: آپ قریش کے قبیلہ عدی سے تعلق رکھتے تھے۔

سوال 2: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا رشتہ تھا؟

جواب: آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے بہنوئی تھے۔

سوال 3: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کن خوش نصیب صحابہ میں شامل ہیں؟

جواب: آپ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔

سوال 4: کیا حضرت سعید بن زید بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے؟

جواب: نہیں، آپ ایک اور مہم پر روانہ تھے، مگر آپ کو بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر دیا گیا۔

سوال 5: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کب وفات پائے؟

جواب: آپ 51 ہجری میں تقریباً 70 برس کی عمر میں وفات پائے۔


---
حضرت سعید بن زید

عشرہ مبشرہ صحابہ

سعید بن زید کا اسلام

سعید بن زید کی قربانیاں

حضرت سعید بن زید کی وفات

جنت کی بشارت والے صحابہ

 

امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...