Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

جمعہ، 18 نومبر، 2022

واقعہ شب معراج نماز کی فرضیت

"واقعہ شب معراج نبی کریم ﷺ کا عظیم معجزہ ہے جس میں آپ ﷺ کو بیت المقدس سے آسمانوں تک سیر کرائی گئی۔ اس سفر کا سب سے بڑا تحفہ امت کے لیے پانچ وقت کی نماز ہے۔ اس بلاگ میں واقعہ معراج کی تفصیل، اہمیت اور سوالات و جوابات شامل ہیں۔"


شب معراج کے واقعے کی تفصیل 

 
شب معراج کا واقعہ اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے یہ  واقعہ ماہ رجب کی 27 تاریخ کو پیش آیا اس  واقعہ   


کا ذکر  قرآن کریم میں بھی ہے ارشاد باری تعالی ہے
اس مبارک سفر کو قرآن کریم میں  معراج کا نام دیا  گیا ماہ رجب کی 27 تاریخ کو حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے بیدار کیا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا پیغام دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے  اور وضو کیا اور اپنے گھر سے باہر تشریف لے آئے قارئین   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے بیان کی کہ جبریل امین علیہ السلام مجھے  براق پر سوار کر کے بیت اللہ سے بیت المقدس کی طرف لے گئےاور براق کی رفتار اتنی تھی کہ جہاں براق کی نظر پڑتی تو اسی لمحے اس کا قدم وہیں ہوتا یعنی جب اس نے آسمان کی جانب دیکھا اور اڑنا  شروع کیا تو اس کا قدم آسمان پر پڑا سفر کے بیان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں کہ اس سارے سفر میں جبریل امین علیہ السلام میرے ساتھ رہے بیت اللہ سے بیت المقدس جاتے وقت راستے میں کئی  مقامات پر اور مختلف جگہوں پر مختلف واقعات رونما ہوئے  سب سے پہلے  ایک مقام حضرت جبریل علیہ السلام  رکے مجھے بھی براق سے اترنے کو کہا  میں نے دیکھا وہاں کثرت سے کھجوروں کے درخت ہیں پھر کہا اے اللہ کے حبیب  یہاں دو رکعت نفل  ادا کر لیں لہذا میں نے ایسا ہی کیا جب میں نے نماز ادا کر لی تو جبریل امین علیہ نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ جانتے ہیں یہ کون سی جگہ ہے  میں نے فرمایا نہیں تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا  یہ  یثرب کا علاقہ ہے یہ وہ جگہ ہے جو بعد میں مدینہ کہلاے گا اور یہ وہ مقام ہے کہ جب مکہ کہ لوگوںکو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے تو مکہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایئں  گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف لے آئیں گے   پھر وہاں سے ہم روانہ ہو گئے  ابھی تھوڑا سا آگے بڑھے تھےکہ کہ ایک اور مقام پر  براق کو زمین پر اتارا اور کہا اے پیغمبر خدا یہاں بھی دو نفل ادا کریں میں نے وہاں بھی دو رکعت نماز  پڑھی  پھر جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا یہ وادی سینہ ہےاور یہ شجر موسی ہے یہی وہ مقام ہے جہاں موسی علیہ السلام اللہ تعالی سے کلام فرمایا کرتے تھے اور  یہی انھیں نبوت عطا کی گئی  اس کے بعد ہم آگئے چل پڑے   اور مدینےکی کے علاقے میں اترے اور حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہاں بھی دو رکعت نفل ادا کر یں تو میں نے وہاں بھی دو رکعت نفل ادا  کئیے  اور جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا یہ شعیب علیہ السلام کا علاقہ ہے اور پھر آگے چل دیے اس کے بعد تھوڑا دور ایک اور مقام پر رکے جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہاں بھی دو رکعت نفل ادا کر لیں لہذا میں نے وہاں بھی دو رکعت نفل ادا کیے جبریل علیہ السلام نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ ہے یہ کون سا علاقہ ہے یہ وہ مقام ہے جہاں   حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی  یہ بہت مبارک مقام ہے کیونکہ  حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اپنےآپ میں ایک عظیم اشان معجزہ ہے  راستے میں عجائبات جاری تھے اور ہم آگئے بڑھتے گئے  راستے میں مجھے ایک بڑھیا نے آواز دی اس پر جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کچھ جواب نہ دیں اور آگئے  بڑھیں میں نے کوئی جواب نہ دیا اور آگئے  بڑھ گیا  آگئے جا کر مجھے ایک بوڑھے ماں آدمی نے آواز دی  اس پر جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا آپ اسے بھی جواب نہ دیں اور آگئے بڑھیں میں نے کوئی جواب نہ دیا اور آگئے بڑھ گیا  آگئے چل کر جبریل امین علیہ السلام نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں یہ  بوڑھے  لوگ کون تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تو جبریل امین علیہ السلام  نے فرمایا یہ  بوڑھی عورت  دنیا تھی  جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے رہی تھی  یہ دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف پکار رہی تھی میں نے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دینے منع کیا اگر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کو جواب دے دیتے  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس دنیا کی طرف متوجہ ہوجاتی  اور دنیا کی محبت میں کھو جاتی لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب نہیں دیا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس کی محبت سے محفوظ رہے گی اور وہ بوڑھا شخص  ابلیس تھا وہ آپ کو آواز دے رہا تھا لہذا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی جواب نہ دیا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی اس کے شر سے محفوظ رہے گی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل امین علیہ السلام بیت المقدس  تک پہنچ گئے وہاں  حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا وہاں باقی تمام  انبیاء کرام اور نبی موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں دو رکعت نفل نماز امامت کے ساتھ پڑھائی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل امین علیہ السلام وہاں سے چلے گئے اور  پہلے آسمان پر پہنچے جب پہلے آسمان پر پہنچے تو جبریل امین علیہ السلام نے آسمان کے د اروغہ سے کہا کھولو اس نے پوچھا کون ہے جواب  دیا جبریل امین علیہ السلام پھر اس نے پوچھا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے انھوں نے کہا ہاں پوچھا گیا کون   تو فرمایا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں د اروغہ نے کہا کیا انھیں لانے کے لیے آپ سے کہا گیا تھا  تو جبریل علیہ السلام نے کہا  جی ہاں  پھر  دروازہ کھولا  گیا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے  وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے دیکھا اس کے دہانی طرف کچھ لوگوں  کے جھنڈ موجود تھے  اس طرح اس کی باہنی طرف بھی کچھ جھنڈ موجود تھے وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو پڑتے انھوں نے جب میری طرف دیکھا تو بولے آو اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے  میں نے جبریل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں  تو انھوں نے بتایا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ان کے دائیں  اور بائیں جانب انکے  بیٹوں کی روحیں ہیں  دائیں جانب نیک روحیں ہیں جبکہ بائیں جانب دوزخ روحیں ہیں اس لیے جب یے دائیں جانب دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو پڑتے ہیں اس کے بعد  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور جبریل امین علیہ السلام دوسرے آسمان کی طرف چل پڑے جب دوسرے آسمان پر پہنچے تو اس کے د اروغہ نے بھی پہلے آسمان کی طرح ہی پوچھا غرض یہ کہ اس طرح سے آپ نے جبریل علیہ السلام کے ساتھ باقی آسمانوں تک کا سفر  طے کیا آپ نے وہاں حضرت  آدم  ،حضرت ادریس، حضرت موسی،  حضرت عیسی  اور حضرت ابراہیم  علیہ السلام کو پایا اس بعد جبریل علیہ السلام  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بلند مقام  پر لے کر  پہنچے جہاں سے انھیں قلم کے لکھنے کی آواز آنے لگی اس سے آگے کا سفر سدرہ المنتہی کا تھا جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا اس سے آگے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے ہی جانا ہے  چنانچہ اس سے آگے کا سفر آپ نے اکیلے ہی کیا  اور اپنے رب سے ملاقات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اس وقت  50 نمازیں  فرض  گئی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس لوٹے  تو حضرت  موسی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کے آپ کی امت پر کیا فرض کیا گیا ہے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا 50 نمازیں  فرض کی ہیں  حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے پاس جائیں اور اس کا کچھ حصہ معاف کر وائیں استعمال کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی  چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گئے تو اس میں سے ایک حصہ معاف کر دیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آے اور بتا یا کہ ایک حصہ معاف کر دیا گیا ہے اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنے رب کے پاس جائیں اور اس کا کچھ حصہ مزید کم کو وائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اسکی بھی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنے رب کے پاس گئے پھر اس کا کچھ حصہ کم کر دیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آے اور بتایا کہ مزید حصہ معاف کر دیا گیا ہے اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس اپنے رب کے پاس جائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گئے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر 5 نمازیں فرض کی گئی ہیں اور اس کا ثواب 50 نمازوں کے برابر ہوگا  باخوشی واپس آگئے  اور حضرت موسی علیہ السلام کو آگاہ کر دیا اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام کے ہمراہ واپس زمین پر اترے  جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ویسے ہی گرم تھا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  چھوڑا تھا یوں معراج کا سفر چند لمحوں میں گزر جانا بھی 

ایک معجزہ  تھا   



🌙 واقعہ شب معراج اور نماز کا تحفہ



---

✨ معراج النبی ﷺ کا تعارف


شب معراج کا واقعہ اسلام کی تاریخ کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ یہ وہ رات تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم حضرت محمد ﷺ کو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں تک سیر کرائی۔ اس سفر کو "اسراء و معراج" کہا جاتا ہے۔ یہ سفر محض جسمانی نہیں بلکہ روحانی عظمت اور رب کے قرب کی علامت بھی تھا۔


---

🕋 سفر اسراء: مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک


اس عظیم سفر کی ابتدا مسجد حرام (کعبۃ اللہ) سے ہوئی، جہاں نبی کریم ﷺ کو براق پر سوار کرایا گیا۔ براق ایک نورانی سواری تھی جو روشنی کی طرح تیز رفتار تھی۔ آپ ﷺ بیت المقدس پہنچے اور وہاں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ نبوت کا سلسلہ آپ ﷺ پر مکمل ہوا۔


---

☁️ معراج: آسمانوں کی سیر


بیت المقدس سے نبی کریم ﷺ کو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ ہر آسمان پر مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی، جیسے:

پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام

دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام

تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام

چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام

پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام

چھٹے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام

ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام


یہ ملاقاتیں اس سفر کی روحانی عظمت کو واضح کرتی ہیں۔


---

🕊️ سدرۃ المنتہیٰ اور قرب الٰہی


نبی کریم ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، جہاں حضرت جبریل علیہ السلام بھی آگے نہ جا سکے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے براہِ راست کلام فرمایا اور انہیں قربِ خاص عطا کیا۔


---

🕌 نماز کا تحفہ


شبِ معراج کا سب سے عظیم تحفہ نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدی ﷺ کے لیے نماز فرض کی۔ شروع میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر نبی کریم ﷺ نے بار بار عرض کیا اور آخر کار پانچ نمازیں فرض ہوئیں، مگر ثواب پچاس نمازوں کا رکھا گیا۔


---

🌟 نماز کی اہمیت


نماز اسلام کا ستون ہے، اور یہی بندے اور رب کے درمیان براہِ راست رابطہ ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
"نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔" (سورۃ العنکبوت: 45)


---

❓ سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: شب معراج کب پیش آیا؟


جواب: یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا، بیشتر مورخین کے مطابق رجب کی 27 ویں شب کو۔

سوال 2: معراج النبی ﷺ کا سب سے بڑا تحفہ کیا تھا؟


جواب: سب سے بڑا تحفہ پانچ وقت کی نماز ہے۔

سوال 3: نبی کریم ﷺ نے معراج میں کس کس نبی سے ملاقات کی؟


جواب: آپ ﷺ نے حضرت آدم، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام سے ملاقات کی۔

سوال 4: معراج جسمانی تھی یا روحانی؟


جواب: جمہور علماء کے نزدیک معراج جسم و روح دونوں کے ساتھ ہوئی، جو نبی کریم ﷺ کا عظیم معجزہ ہے۔

اتوار، 13 نومبر، 2022

حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ




حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امین الامت ہیں۔ آپ نے اسلام کی خاطر بے مثال قربانیاں دیں اور شام کی فتوحات میں عظیم کردار ادا کیا
---

حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ – امین الامت


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے عظیم صحابہ کرام میں سے ہیں۔ آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے، یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ”امین الامت“ (امت کا امانت دار) کا لقب عطا فرمایا۔


---

پیدائش اور خاندان


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام عامر بن عبداللہ تھا۔

آپ مکہ مکرمہ میں قریش کے قبیلہ فہر میں پیدا ہوئے۔

آپ کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام امیمہ بنت غنم تھا۔

آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے نسب کے اعتبار سے نویں پشت پر جا ملتے ہیں۔



---

قبول اسلام


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ ابتدائی دور میں ہی اسلام لے آئے۔

آپ کا شمار ان دس افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

آپ نے کفار مکہ کی سختیوں کو برداشت کیا لیکن دین پر قائم رہے۔



---

ہجرت اور جہاد میں کردار


آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

جنگ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے۔

جنگ بدر کے دوران آپ اپنے والد کے مقابلے میں آئے جو کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ آپ نے اسلام کی خاطر اپنے والد کے خلاف لڑائی کی۔ یہ اسلام پر آپ کے غیر متزلزل ایمان کی دلیل تھی۔



---

حضرت عبیدہ بن الجراح کا کردار


آپ ایک نہایت دیانتدار، ایماندار اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔

آپ کو امین الامت کا خطاب ملا، کیونکہ آپ کی سچائی اور امانت داری بے مثال تھی۔

آپ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں اسلامی لشکروں کی قیادت کرتے رہے۔



---

شام کی فتوحات میں کردار


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔

آپ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کی فوجوں کا سپہ سالار مقرر کیا۔

آپ نے بیت المقدس کی فتح میں بھی اہم کردار ادا کیا اور اہل روم کو بارہا شکست دی۔



---

وفات


حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ 18 ہجری میں شام میں طاعون عمواس کی وبا کے دوران شہید ہوئے۔

وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً 58 برس تھی۔

آپ کی وفات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
”کاش عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلافت کے لیے منتخب کرتا۔“



---

سوالات و جوابات


سوال 1: حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام کیا تھا؟

جواب: ان کا اصل نام عامر بن عبداللہ تھا۔

سوال 2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن الجراح کو کیا لقب دیا؟

جواب: آپ کو "امین الامت" یعنی امت کا امانت دار کا لقب دیا گیا۔

سوال 3: حضرت عبیدہ بن الجراح کس بڑی وبا میں شہید ہوئے؟

جواب: آپ شام میں طاعون عمواس کے دوران شہید ہوئے۔

سوال 4: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے بارے میں کیا فرمایا؟

جواب: انہوں نے فرمایا کہ اگر عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلافت کے لیے منتخب کرتا۔

سوال 5: حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ کو کن صحابہ کرام میں شمار کیا جاتا ہے؟

جواب: آپ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔


حضرت عبیدہ بن الجراح

امین الامت

عشرہ مبشرہ صحابہ

شام کی فتوحات

طاعون عمواس

عبیدہ بن الجراح کا لقب

حضرت عبیدہ بن الجراح کی قربانیاں

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ کے عظیم صحابی تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی۔ آپ کی زندگی ایمان، قربانی اور جہاد سے عبارت ہے۔







حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ – عشرہ مبشرہ کے خوش نصیب صحابی


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ کے ان خوش بخت صحابہ کرام میں شامل ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ایمان، ثابت قدمی اور جہاد فی سبیل اللہ میں بہادری کی وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔


---

ابتدائی زندگی اور خاندان


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ عدی سے تھا۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کا نام زید بن عمرو اور والدہ کا نام فاطمہ بنت بعجہ تھا۔

آپ کے والد حضرت زید اسلام سے قبل ہی توحید کے قائل تھے اور بت پرستی سے دور رہتے تھے۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا سے ہوا، اس طرح آپ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بہنوئی تھے۔



---

قبول اسلام


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ ابتدائی دور میں ہی اسلام لے آئے تھے۔

آپ ان دس خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

آپ کی بیوی حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا بھی ایمان لے آئیں۔

جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا تو اس واقعے میں حضرت سعید اور ان کی اہلیہ کا اہم کردار تھا۔



---

ہجرت اور جہاد میں کردار


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

آپ بدر کی لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے شریک نہ ہو سکے، کیونکہ آپ کسی اور مشن پر بھیجے گئے تھے۔ لیکن آپ کو اس کا پورا اجر دیا گیا۔

اس کے بعد احد، خندق اور دیگر غزوات میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ اسلامی فتوحات میں بھی شریک رہے اور اپنی بہادری کا لوہا منوایا۔



---

عبادت اور زہد


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ عبادت گزار، سادہ مزاج اور متقی صحابی تھے۔

دنیاوی مال و دولت سے زیادہ دین کو ترجیح دیتے تھے۔

اکثر قرآن کی تلاوت اور ذکر الہی میں مشغول رہتے۔



---

جنت کی بشارت


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان دس صحابہ میں شامل فرمایا جنہیں دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دی گئی۔ یہ آپ کی نیک سیرت اور عظیم قربانیوں کا ثبوت ہے۔


---

وفات


حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات 51 ہجری میں تقریباً 70 سال کی عمر میں ہوئی۔

آپ کو مدینہ منورہ کے مضافات میں دفن کیا گیا۔

مسلمانوں نے آپ کی وفات پر گہرا غم محسوس کیا۔



---

سوالات و جوابات


سوال 1: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے؟

جواب: آپ قریش کے قبیلہ عدی سے تعلق رکھتے تھے۔

سوال 2: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا رشتہ تھا؟

جواب: آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے بہنوئی تھے۔

سوال 3: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کن خوش نصیب صحابہ میں شامل ہیں؟

جواب: آپ عشرہ مبشرہ میں شامل تھے جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔

سوال 4: کیا حضرت سعید بن زید بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے؟

جواب: نہیں، آپ ایک اور مہم پر روانہ تھے، مگر آپ کو بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر دیا گیا۔

سوال 5: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کب وفات پائے؟

جواب: آپ 51 ہجری میں تقریباً 70 برس کی عمر میں وفات پائے۔


---
حضرت سعید بن زید

عشرہ مبشرہ صحابہ

سعید بن زید کا اسلام

سعید بن زید کی قربانیاں

حضرت سعید بن زید کی وفات

جنت کی بشارت والے صحابہ

 

اتوار، 6 نومبر، 2022

حضرت عبد الرحمن بن عوف کی سیرت


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ کے عظیم صحابی تھے۔ آپ نے اپنی سخاوت، بہادری اور اسلام کے لیے قربانیوں سے تاریخ میں منفرد مقام پایا اور دنیا میں ہی جنت کی بشارت حاصل کی۔




 ---

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ – عشرہ مبشرہ کے جلیل القدر صحابی


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل ان خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔ آپ اپنی سخاوت، شجاعت، تجارت اور دین کے لیے قربانیوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔


---

ابتدائی زندگی اور خاندان


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام عبد عمرو تھا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمٰن رکھا۔

آپ 580 عیسوی کے قریب مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔

آپ قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔

آپ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے خاندان سے جا ملتا ہے۔



---

قبول اسلام


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں شمولیت اختیار کی۔

آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی دعوت پر اسلام لائے۔

اسلام لانے کے بعد آپ کو سخت مظالم سہنے پڑے، لیکن ثابت قدم رہے۔



---

ہجرت اور خدمات


آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

مدینہ پہنچنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا مواخات حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ سے کرایا۔


حضرت سعد نے آدھی جائیداد دینے کی پیشکش کی مگر حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:
"مجھے بازار کا راستہ دکھا دو۔"
یوں آپ نے تجارت شروع کی اور اللہ نے آپ کو بے پناہ مال عطا فرمایا۔


---

سخاوت اور فیاضی


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ اپنی بے مثال سخاوت کے لیے مشہور تھے۔

ایک موقع پر سات سو اونٹ سامان تجارت سے بھرے ہوئے مدینہ آئے تو آپ نے سب کچھ اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا۔

آپ نے جہاد کے موقع پر مسلمانوں کو کثیر مال دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لیے بھی آپ نے بڑی فیاضی کے ساتھ مال وقف کیا۔



---

جہاد میں بہادری


حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالی عنہ نے غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔

غزوہ بدر اور احد سمیت تقریباً تمام بڑی جنگوں میں شریک رہے۔

غزوہ احد میں آپ کے پاؤں پر زخم آئے اور کئی دانت شہید ہو گئے۔



---

خلافت کے دور میں کردار


حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی شہادت کے وقت خلافت کے انتخاب کے لیے چھ رکنی شوریٰ تشکیل دی۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ اس شوریٰ کے اہم رکن تھے اور آپ نے اپنی رائے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب کرایا۔


---

وفات


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے 32 ہجری میں 72 برس کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔


---

سوالات و جوابات


سوال 1: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کا اصل نام کیا تھا؟

جواب: ان کا اصل نام عبد عمرو تھا، بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبدالرحمٰن رکھا۔

سوال 2: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کس کی دعوت پر قبول کیا؟

جواب: انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔

سوال 3: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی کون سی خصوصیت زیادہ مشہور ہے؟

جواب: آپ کی بے مثال سخاوت اور فیاضی مشہور ہے۔

سوال 4: آپ کو کس بڑی شوریٰ میں شامل کیا گیا تھا؟

جواب: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو خلافت کے انتخاب کے لیے بنائی گئی چھ رکنی شوریٰ میں شامل کیا۔

سوال 5: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کب اور کہاں وفات پائے؟

جواب: آپ 32 ہجری میں وفات پائے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔


حضرت عبدالرحمٰن بن عوف

عشرہ مبشرہ صحابہ

حضرت عبدالرحمٰن کی سخاوت

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کا اسلام

حضرت عبدالرحمٰن کی تجارت

جنت کی بشارت والے صحابہ



ہفتہ، 5 نومبر، 2022

حضرت طلحہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت

حضرت طلحہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ 

حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشرہ کے عظیم صحابی تھے۔ آپ نے اسلام کی راہ میں بے مثال قربانیاں دیں، غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی اور جنگ جمل میں شہادت پائی۔


 

 

حضرت طلحہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ

 ---


حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ – عشرہ مبشرہ کے عظیم صحابی


حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی اور جانثار صحابہ کرام میں سے تھے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں اور اپنی بہادری، سخاوت اور قربانیوں کی وجہ سے تاریخ اسلام میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔



---


ابتدائی زندگی اور خاندان


حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ 596 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو محمد تھی جو آپ کے بیٹے پر رکھی گئی۔ آپ قریش کی مشہور شاخ بنو زین سے تعلق رکھتے تھے اور نسب آگے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا تھا۔


آپ بچپن ہی میں یتیم ہو گئے لیکن پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔ آپ کے والد نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا مگر والدہ نے آپ کے ساتھ فوراً اسلام قبول کیا اور صحابیہ ہونے کا شرف پایا۔



---


قبول اسلام اور قربانیاں


حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے صرف 16 برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے بعد سختیوں اور مظالم کا سامنا کیا لیکن صبر اور استقامت کے ساتھ دین پر قائم رہے۔



---


ہجرت اور ابتدائی خدمات


آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور والدہ بھی ساتھ تھیں۔ غزوہ بدر میں آپ کافروں کی خبر لینے کے لیے شام بھیجے گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بدر کے شرکاء میں شامل فرمایا اور مال غنیمت میں حصہ بھی دیا۔



---


غزوہ احد میں بہادری


غزوہ احد میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی۔


آپ نے اپنے جسم کو ڈھال بنایا اور ہر وار کو اپنے اوپر سہہ لیا۔


تیر، پتھر اور زخموں کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کمر پر اٹھا کر پہاڑ تک پہنچایا۔


اس جنگ میں آپ کا ایک ہاتھ شدید متاثر ہوا۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"طلحہ نے جنت کو اپنے اوپر واجب کر لیا ہے۔"



---


سخاوت اور خدمات


حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ دولت عطا کی تھی۔ آپ نے اپنی دولت کا بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور اسلام کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔



---


شہادت


حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ 36 ہجری میں جنگ جمل کے دوران شہید ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر 64 سال تھی۔ آپ کی شہادت اسلام کی خاطر دی گئی عظیم قربانیوں میں سے ایک ہے۔



---


سوالات و جوابات


سوال 1: حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہاں اور کب پیدا ہوئے؟

جواب: آپ 596 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔


سوال 2: حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کس عمر میں اسلام قبول کیا؟

جواب: آپ نے 16 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔


سوال 3: غزوہ احد میں حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کردار کیا تھا؟

جواب: آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانثارانہ حفاظت کی، اپنے جسم کو ڈھال بنایا اور زخمی ہونے کے باوجود حضور کو محفوظ مقام پر پہنچایا۔


سوال 4: حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کون سی خاص فضیلت حاصل ہے؟

جواب: آپ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔


سوال 5: حضرت طلحہ رضی اللہ تعال

ی عنہ کب اور کہاں شہید ہوئے؟

جواب: آپ 36 ہجری میں جنگ جمل کے دوران شہید ہوئے۔

 


حضرت طلحہ بن عبید اللہ


عشرہ مبشرہ صحابہ


غزوہ احد میں حضرت طلحہ


حضرت طلحہ کی شہادت


حضرت طلحہ کی بہادری


حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سخاوت


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 

کے جانثار صحابی

منگل، 1 نومبر، 2022

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت


حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ 


حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی اور پھوپھی زاد بھائی تھے۔ آپ نے 15 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کی سعادت پائی اور بہادری کی بے مثال داستانیں رقم کیں۔



 

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش  

  
 حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والدین نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام زبیر رکھا  آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ابو عبداللہ تھی  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہی نام پسند تھا 

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق 

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق قریش کی شاخ بنو اسد سے تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا تعلق پانچویں پشت سے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے جا ملتا ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ کا نام صفیہ بنت عبد المطلب تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی پھوپھی تھیں اس طرح آپ رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے   

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی پرورش 

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ حضرت سیدنا صفیہ رضی اللہ تعالی عنھا  ایک بہادر خاتون  تھیں انھوں نے اپنے بیٹے کی پرورش نہایت اچھے انداز سے کی اور انھیں اللہ تعالی کے حکم سے ایک بہادر سپاہی بنایا 

 قبول اسلام

 جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کااعلان کیا تو اس وقت سیدنا صوفیہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت فورا اسلام قبول کر لیا اس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر 15 سال تھی

 قبول اسلام کے بعد مشکلات کا سامنا 

قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے چچا نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر بہت ظلم کیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ سارے مظالم صبر و واستقامت کے ساتھ  برداشت کیے اور اسلام کی راہ پر قائم رہے

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا واقعہ 

 آپ رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جان نثار کرنے والے صحابہ میں سے تھے ایک مرتبہ مکہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ جاسوسوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اغواء کر لیا  ہے یا نعوذباللہ قتل کردیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی خالی تلوار ہاتھ میں لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف  دوڑے جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر خیریت سے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا تو پوچھا کہ خیریت  ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی تلوار کو ایسے لیے کیوں پھر رہے ہو تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے سارا واقعہ بتادیا جسے سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر یہ سچ ہوتا تو تم کیا کرتے  تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں ان سے لڑتااور اس وقت تک لڑتا جب تک شہید نہ ہو جاتا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے 

جنت کی بشارت 

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی راہ مختلف خدمات سرانجام دیتے ہوئے وقف کر دی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان اصحاب میں ہوتا جنھیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی 

 حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات

حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک شریعت شخص آمر بن جمرود آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا تعاقب  کررہا تھاراستے میں جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ نماز پڑھنے لگے تو ایسے میں اس شخص نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر تلوار سے اسطرح سے وار کیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ وہیں شہید ہو گئے اس وادی کا نام وادی 

صبا تھا اور آپ کو  وہیں  دفن کیا گیا  



حضرت زبیر رضی اللہ عنہ – سوالات و جوابات


سوال 1: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور ان کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔

سوال 2: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا تعلق کس قبیلے سے تھا؟

جواب: آپ رضی اللہ عنہ قریش کی شاخ بنو اسد سے تعلق رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔

سوال 3: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کس عمر میں اسلام قبول کیا؟

جواب: آپ نے صرف 15 برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔

سوال 4: قبول اسلام کے بعد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

جواب: آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے چچا کے ظلم و ستم سہنے پڑے، لیکن آپ نے صبر اور استقامت کے ساتھ اسلام پر ثابت قدمی اختیار کی۔

سوال 5: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا کوئی واقعہ بتائیں؟

جواب: ایک مرتبہ جب مکہ میں خبر پھیلی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچایا گیا ہے، تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر دوڑے اور کہا کہ اگر یہ سچ ہوتا تو میں لڑتا اور جان دے دیتا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔

سوال 6: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو کیا خاص فضیلت حاصل ہے؟

جواب: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔

سوال 7: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کیسے ہوئی؟

جواب: آپ رضی اللہ عنہ کو بصرہ جاتے ہوئے وادی صبا میں نماز کے دوران آمر بن جمرود نے شہید کیا۔


---حضرت زبیر رضی اللہ عنہ

عشرہ مبشرہ صحابہ

حضرت زبیر کی بہادری

حضرت زبیر کی شہادت

حضرت زبیر کا قبیلہ

عشرہ مبشرہ میں حضرت زبیر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی

پیر، 31 اکتوبر، 2022

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت طیبہ

 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ، عشرہ مبشرہ میں شامل جلیل القدر صحابی تھے۔ تیر اندازی کے ماہر، فاتح عراق، اور کوفہ کے پہلے گورنر۔ ان کی زندگی، خدمات اور جنت کی بشارت کا تفصیلی جائزہ پڑھیے۔





                حضرت سعد بن ابی وقاص کی پیدائش

  حضرت سعد بن ابی وقاص مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے  ماں باپ نے ان کا نام سعد رکھا بعض مورخین نے انکے نام کے ساتھ وقاص لکھا اسکا مطلب ہے جنگجو یا گردن توڑنے والا  


حضرت سعد بن ابی وقاص کاتعلق 

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے ان کا سلسلہ نسب پانچویں پشت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے انھوں نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی


حضرت سعد بن ابی وقاص کی فن و مہارت 


آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بچپن میں ہی تیر کمان بنانے کا فن سیکھ لیا تھا اس زمانے میں اس فن کی بڑی قدر تھی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو اس فن میں ایسی مہارت حاصل تھی کہ لوگ دور دور سے ان کی بنائی ہوئی تیر اور کمانے خرید نے آتے تھے 


 جنت کی بشارت  


حضرت سعد بن ابی وقاص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت پیارے ساتھیوں میں سے تھے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان اصحاب میں ہوتا جنھیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی تھی آپ نے اسلام قبول کرنے کےبعد ہر قسم ہی سختیوں برداشت کی 


ہجرت اور بدر کی لڑائی 


 آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبوت کے تیرویں سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مدینےکی طرف ہجرت کی ہجرت کے دو سال بعدبدر کی لڑائی پیش آئ اس میں تقریبا ایک ہزار کافروں کے مقابلے میں تین سو تیرہ مسلمان تھےمسلمانوں  کے پاس پورا سازوسامان بھی نہیں تھا لیکن  یہ مھٹی بھر مسلمان اللہ کی راہ میں ایسے جوش وخروش سے لڑے  کہ انھیں ہتھیاروں یا تعداد کی بھی پروا نہ تھی  ہاں ان میں اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے کا جذبہ موج وزن تھا ان صحابہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور ان کے چھوٹے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بھی  شامل تھے 


 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ  کی اسلام


کے لے خدمت میں 


  حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ راشدین کے ساتھ مل کر اشاعت اسلام کے لیے کام کیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے  مختلف فتوحات میں حصہ لیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو عراق کی طرف جہاد کے لیے بھیجے جانے والے لشکر کا سپہ سالار بنا کر بھیجا اس زمانے نے میں عراق کے بہت سے علاقے ایرانیوں کے قبضے میں تھے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے ایرانیوں کو شکست دے کر کچھ ہی عرصہ میں عراق کو فتح کر لیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ کا گورنر بنایا  حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے  مدائن کو حکومت کا مرکز بنایا سارے علاقے کی مردم شماری کروائی  زمین کی پیمائش کروائی  چھوٹی چھوٹی نہریں کھدوا کر کھیتوں کو پانی دینے کا عمدہ  نظام کروایا  بہت سے پل ،مسافر خانے ،مدرسے بنواے مختلف  ہنرمندوں کے لیے وظائف مقرر کیے فوجیوں کے لیے تنخواہ اور رسد کا اعلی انتظام کیا مختصر عرصے میں ہر طرف امن وامان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا 


 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات

 

بڑھاپے کی وجہ سے آپ بہت کمزور ہو گئے تھے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی بینائی جواب دے گئی 55ہجری  میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ رضا الہی سے  وفات پاگئے امت امہات المومینین کے حجروں کے سامنے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی گئ  اور اسلام کے اس بہادر بیٹے کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا  

❓ سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہاں پیدا ہوئے؟

جواب: آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور قریش کی شاخ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔

سوال 2: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی خاص مہارت کیا تھی؟

جواب: آپ تیر کمان بنانے میں ماہر تھے اور اس فن میں ایسی مہارت حاصل کی کہ لوگ دور دور سے ان کے تیر اور کمان خریدنے آتے تھے۔

سوال 3: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو دنیا میں جنت کی بشارت کیسے ملی؟

جواب: آپ اسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں شامل تھے اور آپ کو رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی۔

سوال 4: بدر کی لڑائی میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کا کیا کردار تھا؟

جواب: آپ نے اپنے بھائی حضرت عمیر کے ساتھ بدر کی لڑائی میں حصہ لیا اور ایمان و قربانی کی عظیم مثال قائم کی۔

سوال 5: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلامی فتوحات میں کیا کردار ادا کیا؟

جواب: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں عراق بھیجا جہاں آپ نے ایرانیوں کو شکست دے کر عراق فتح کیا اور کوفہ کو دارالحکومت بنایا۔

سوال 6: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کب ہوئی؟

جواب: آپ 55 ہجری میں وفات پاگئے اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔


امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...