Ya Allah hu Ya Razaqu

Ya Allah hu Ya Razaqu
Islamic knowledge in Urdu

بدھ، 30 اپریل، 2025

حضرت یعقوب علیہ السلام کی مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات


 

حصہ گیارہواں:

اور آخری حصہ 



 یعقوب علیہ السلام کا مصر کی طرف سفر اور یوسف علیہ السلام سے ملاقات



---

یعقوب علیہ السلام کو خوشخبری ملنا


جب قافلہ یوسف علیہ السلام کا کرتا لے کر مصر سے روانہ ہوا اور کنعان کے قریب پہنچا، تو یعقوب علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے یوسف کی خوشبو آنے لگی۔

آپ نے فرمایا:

> "مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے، اگر تم مجھے کم عقل نہ سمجھو۔"



گھر والے حیران ہوئے، لیکن جیسے ہی کرتا چہرے پر ڈالا گیا، آپ کی بینائی واپس لوٹ آئی۔

یعقوب علیہ السلام نے فوراً فیصلہ کیا کہ پورے خاندان کے ساتھ مصر ہجرت کی جائے۔



---

مصر کی طرف ہجرت


یعقوب علیہ السلام اپنے تمام بیٹوں، بیٹیوں اور پوتوں سمیت اہلِ بیت کو لے کر روانہ ہوئے۔

تفسیر کے مطابق، خاندان کے افراد کی تعداد ستر سے زیادہ تھی۔

یہ قافلہ عزت و وقار کے ساتھ مصر کی جانب بڑھا، جہاں اللہ کی طرف سے راحت اور سکون ان کا منتظر تھا۔



---

والد اور بیٹے کی ملاقات


جب قافلہ مصر پہنچا تو یوسف علیہ السلام نے شاہی دربار سے باہر آکر استقبال کیا۔

یوسف علیہ السلام نے والد کو گلے لگایا، برسوں کی جدائی اور غم آنسوؤں میں بہہ گیا۔

قرآن کریم بیان کرتا ہے:


> "یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور سب کو تخت پر بٹھایا، اور وہ سب سجدہ شکر میں گر پڑے۔" (سورہ یوسف، 100)




یہ وہی خواب کی تعبیر تھی جو یوسف علیہ السلام نے بچپن میں دیکھی تھی کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے ان کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔


---

یوسف علیہ السلام کی دعا


اس موقع پر یوسف علیہ السلام نے شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی:

"اے میرے رب! تو نے مجھے بادشاہت عطا کی، خواب کی تعبیر سکھائی، آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ مجھے اسلام پر موت دینا اور صالحین کے ساتھ شامل فرمانا۔"



---

اس حصے سے حاصل ہونے والے سبق


1. اللہ کی حکمت اور وعدہ پورا ہوتا ہے: یوسف علیہ السلام کا خواب برسوں بعد حقیقت میں ظاہر ہوا۔


2. صبر کے بعد سکون: یعقوب علیہ السلام نے سالہا سال صبر کیا، آخرکار اللہ نے ان کے صبر کا بدلہ دیا۔


3. شکر اور دعا کی اہمیت: نعمت ملنے پر یوسف علیہ السلام نے سب کچھ اللہ کا فضل قرار دیا اور آخرت کی فلاح مانگی۔


4. خاندان کی برکت: یعقوب علیہ السلام کا پورا خاندان ایمان اور عزت کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوا۔




---

حضرت یوسف علیہ السلام سے متعلق اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQ)



---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کون تھے؟


✅ حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسن و جمال، خواب کی تعبیر اور حکمت میں خاص مقام عطا فرمایا۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب کیا تھا؟


✅ آپ نے خواب میں سورج، چاند اور گیارہ ستارے دیکھا جو آپ کو سجدہ کر رہے تھے۔ اس کی تعبیر اس وقت پوری ہوئی جب آپ کے والدین اور گیارہ بھائی مصر میں آپ کے سامنے جھکے۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں کیوں ڈالا گیا؟


✅ بھائیوں نے حسد اور بغض کی وجہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا تاکہ یعقوب علیہ السلام کی محبت سے محروم کر سکیں۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو کس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا؟


✅ سب سے بڑی آزمائش عزیز مصر کی بیوی کا فتنہ تھا، لیکن یوسف علیہ السلام نے صبر اور تقویٰ اختیار کیا اور گناہ سے بچ گئے۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر میں کون سا عہدہ ملا؟


✅ بادشاہ نے انہیں مصر کے خزانے اور زراعت کا وزیر بنایا تاکہ وہ قحط سالی سے نمٹ سکیں۔


---

❓ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کب واپس آئی؟


✅ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنا کرتا بھیجا اور یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر رکھا گیا، تو اللہ کے حکم سے ان کی بینائی واپس آ گئی۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کیوں کیا؟


✅ جب بھائیوں نے اپنی غلطی مانی تو یوسف علیہ السلام نے فرمایا:

> "آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔"
یہ ان کے عفو و درگزر اور نبیوں کی اعلیٰ صفات کی مثال ہے۔




---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے کیا سبق ملتا ہے؟



صبر کے بعد اللہ کی مدد آتی ہے۔

حسد خاندانوں کو تباہ کرتا ہے۔

پاکدامنی اور تقویٰ سے عزت ملتی ہے۔

معافی سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔

اللہ کی حکمت ہر حال میں غالب رہتی ہے۔  


اس قصے میں ہم نے جن مضامین کا مطالعہ کیا 


---حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف کا قصہ

یوسف علیہ السلام کا خواب

یوسف علیہ السلام کے بھائی

کنویں میں ڈالنے کا واقعہ

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی

قرآن میں حضرت یوسف کا واقعہ

یوسف علیہ السلام کی آزمائش

آخر کار یہ قصہ یہی اختتام پذیر ہوا 

حضرت یعقوب علیہ السلام کا عزیز مصر کے نام خط



حضرت یعقوب علیہ السلام کا خط، یوسف علیہ السلام کا انکشاف، بھائیوں کی توبہ اور قمیص یوسفی کا معجزہ—یہ حصہ قصۂ یوسف کا سب سے ایمان افروز منظر ہے۔ صبر، معافی اور اللہ کی حکمت کے عظیم اسباق پر مشتمل۔




حصہ دسواں: یوسف علیہ السلام کا تعارف، بھائیوں کی توبہ اور یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی واپسی



---


یعقوب علیہ السلام کا خط عزیزِ مصر کے نام


یعقوب علیہ السلام نے غم و کرب کی حالت میں عزیزِ مصر کو ایک خط لکھا، جس کا خلاصہ یہ تھا:


"میں یعقوب صفی اللہ بن اسحٰق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں۔


ہمارا خاندان ہمیشہ آزمائشوں میں رہا ہے:


ابراہیم علیہ السلام کا امتحان آتشِ نمرود میں،


اسحٰق علیہ السلام کا امتحان،


اور اب میرا امتحان میرے بیٹے یوسف کے ذریعے۔



یوسف کی جدائی سے میری بینائی جاتی رہی۔


پھر میرا دوسرا سہارا بنیامین بھی قید کر لیا گیا۔


ہم انبیا کی اولاد ہیں، ہم پر چوری کا الزام کیسے لگ سکتا ہے؟"




---


یوسف علیہ السلام کا راز افشا ہونا


جب یوسف علیہ السلام نے یہ خط پڑھا:


وہ جذبات سے لرز گئے اور بے اختیار رونے لگے۔


بھائیوں سے فرمایا:


> "کیا تمہیں یاد ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جب تم جہالت میں تھے؟"





بھائی حیران رہ گئے اور آپس میں کہنے لگے:


"کیا یہ عزیزِ مصر دراصل یوسف ہی ہیں؟"


آخرکار انہوں نے پہچان لیا اور پوچھا:


> "کیا آپ واقعی یوسف ہیں؟"





یوسف علیہ السلام نے فرمایا:


> "ہاں، میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔

اللہ نے ہم پر فضل فرمایا۔

جو صبر کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے، اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"





---


بھائیوں کی توبہ اور یوسف علیہ السلام کی معافی


بھائی اپنی غلطی پر شرمندہ ہوئے اور معافی مانگی۔


یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ حلم اور عفو سے فرمایا:


> "آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ اللہ تمہیں بخشے۔"





یہی الفاظ بعد میں نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر قریش کے لیے دہرائے۔



---


کرتا اور بینائی کی واپسی کا معجزہ


یوسف علیہ السلام نے اپنا کرتا دیا اور فرمایا:


"یہ کرتا والد کے چہرے پر ڈالنا، ان کی بینائی لوٹ آئے گی۔"



قمیص یوسفی کی حقیقت


یہ عام کرتا نہ تھا بلکہ جنتی کرتا تھا۔


یہ لباس جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جانے کے وقت جنت سے لایا گیا تھا۔


پھر یہ کرتا نسل در نسل منتقل ہوا:


ابراہیم → اسحٰق → یعقوب → یوسف۔



برادران یوسف نے جب یوسف کو کنویں میں ڈالا تو جبرائیل نے یہی کرتا دوبارہ یوسف کو پہنا دیا۔


یہی کرتا معجزے کے طور پر یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی بحالی کا ذریعہ بنا۔




---


خوشبو کا معجزہ


جب قافلہ کرتا لے کر مصر سے روانہ ہوا:


حضرت یعقوب علیہ السلام کو دور ہی سے یوسف کی خوشبو آنے لگی۔


یہ اس بات کی دلیل تھی کہ انبیا بھی اللہ کے حکم کے بغیر غیب نہیں جانتے۔


یہ خوشبو اللہ کے حکم سے تھی تاکہ یعقوب علیہ السلام کے صبر کا صلہ ظاہر ہو۔




---


اس حصے سے حاصل سبق


1. صبر اور تقویٰ کا صلہ: یوسف علیہ السلام نے مشکلات کے باوجود صبر کیا اور اللہ نے انہیں عزت عطا فرمائی۔



2. معافی کی عظمت: یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کیا، نبی ﷺ نے بھی یہی سنت اپنائی۔



3. انبیا کی سنتِ آزمائش: ہر نبی آزمائش سے گزرا، اور وہی امتحان در

اصل درجات کی بلندی کا ذریعہ بنا۔



4. معجزۂ قمیص یوسفی: یہ اللہ کی قدرت کی نشانی تھی کہ کپڑے کے وسیلے سے بینائی واپس لوٹ آئی۔



آپ نے مطالعہ کیا 

حضرت یوسف علیہ السلام، قمیص یوسفی، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی، جنتی کرتا، بھائیوں کی توبہ، یوسف کا انکشاف، صبر و تقویٰ، قصہ یوسف۔


بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 


بنیامین کی واپسی کے لیے بھائیوں کا آپس میں مشورہ




حصہ نواں: 


بھائیوں کی مایوسی، یعقوب علیہ السلام کا صبر اور حقیقت کا انکشاف



---

بنیامین کی رہائی کی درخواست


جب برادرانِ یوسف نے دیکھا کہ بنیامین گرفتار ہو گئے ہیں اور واپسی ممکن نہیں، تو وہ عزیزِ مصر (یوسف علیہ السلام) سے عرض گزار ہوئے:

"ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے، پہلے ہی یوسف کی جدائی کا غم سہہ رہا ہے۔

اگر بنیامین بھی نہ گیا تو وہ صدمہ برداشت نہ کر سکے گا۔

مہربانی فرما کر بنیامین کو چھوڑ دیجیے اور اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو روک لیجیے۔"


یوسف علیہ السلام نے جواب دیا:


> "خدا کی پناہ! ہم کسی بےگناہ کو کیسے روک سکتے ہیں؟ ہم ظالموں میں سے نہیں ہیں۔"




---

بڑے بھائی کا فیصلہ


جب سب تدبیریں ناکام ہوئیں تو بھائی خلوت میں مشورہ کرنے لگے۔

بڑے بھائی (جن کا نام بعض مفسرین کے مطابق یہودا یا روبِیل تھا) نے کہا:

"میں تو یہیں رہوں گا، مصر سے واپس نہیں جاؤں گا۔

تم سب والد کو حقیقت بتا دینا کہ بنیامین پر چوری ثابت ہوئی اور اسی بنا پر اسے روک لیا گیا ہے۔

یہ بات ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، ہمیں اس کا علم پہلے سے نہ تھا۔

اگر والد کو یقین نہ آئے تو وہ مصر کے لوگوں یا اس قافلے سے تحقیق کر لیں جو ہمارے ساتھ ہے۔"




---

یعقوب علیہ السلام کا صبر اور آنسو


جب بھائی واپس گئے اور والد کو خبر دی، تو یعقوب علیہ السلام کو یقین نہ آیا۔

انہوں نے فرمایا:

> "تم نے یہ بات اپنی طرف سے گھڑی ہے۔ میرے لیے صبر ہی بہتر ہے۔
عنقریب اللہ سب کو میرے پاس لے آئے گا۔"



اس صدمے کے بعد یعقوب علیہ السلام کا دل غم سے بھر گیا۔

وہ اکثر اللہ کے حضور گریہ کرتے، یہاں تک کہ کثرتِ رونے سے آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔

مفسرین کے مطابق یہ حالت تقریباً چھ سال تک رہی۔



---

بھائیوں کی دوسری واپسی مصر


قحط کی شدت نے برادران یوسف کو دوبارہ مصر آنے پر مجبور کیا۔

اس بار وہ غلہ خریدنے کے لیے بہتر مال نہ لا سکے، بلکہ معمولی چیزیں لے کر آئے۔

عاجزی سے کہنے لگے:

> "اے عزیزِ مصر! ہم سخت تکلیف میں ہیں۔ یہ ناقص سامان ہے، براہِ کرم اسے قبول فرما لیجیے اور ہمیں پورا غلہ عنایت فرما دیجیے۔ اسے خیرات سمجھ کر دے دیجیے، اللہ خیرات کرنے والوں کو اجر دیتا ہے۔"





---

یوسف علیہ السلام کا انکشاف


جب یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کی عاجزی اور شکستہ حالت دیکھی تو ان کا دل بھر آیا۔

وہ وقت آ پہنچا تھا جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردہ اٹھانے کی اجازت مل گئی۔

یوسف علیہ السلام نے اپنی پہچان ظاہر کی اور فرمایا:

> "کیا تم نے میرے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا تھا جب میں بچپن میں تھا؟
میں ہی یوسف ہوں، اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔
اللہ نے ہم پر فضل فرمایا۔ جو صبر کرے اور پرہیزگار ہو، اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔"




یہ انکشاف نہ صرف بھائیوں کو حیران کر گیا بلکہ یعقوب علیہ السلام کی دعاؤں اور صبر کا صلہ بھی ثابت ہوا۔


---


حصہ نواں کے اہم سوالات (FAQ)


سوال 1: بڑے بھائی نے بنیامین کے معاملے میں کیا فیصلہ کیا؟

جواب: انہوں نے کہا کہ وہ مصر میں ہی رہیں گے اور باقی بھائی والد کو خبر دیں۔

سوال 2: یعقوب علیہ السلام پر اس صدمے کا کیا اثر ہوا؟

جواب: کثرتِ گریہ سے ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ کئی سال غم کی کیفیت میں رہے۔

سوال 3: بھائی دوبارہ کیوں مصر آئے؟

جواب: قحط کی شدت نے انہیں دوبارہ مجبور کیا کہ وہ مصر جا کر غلہ خریدیں۔

سوال 4: یوسف علیہ السلام نے کب اپنی حقیقت ظاہر کی؟

جواب: جب بھائی عاجزی سے غلہ مانگنے آئے تو انہوں نے خود کو ظاہر کیا اور فرمایا: "میں یوسف ہوں۔"


---

نتیجہ 


حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین کی گرفتاری کے بعد مایوس ہو گئے۔ یعقوب علیہ السلام نے صبر کیا اور کثرت گریہ سے بینائی کھو دی۔ قحط کی شدت پر بھائی دوبارہ مصر گئے تو یوسف علیہ السلام نے اپنی حقیقت ظاہر کی اور اللہ کی حکمت پوری ہوئی۔


---

آپ نے مطالعہ کیا 


حضرت یوسف علیہ السلام، بنیامین کی گرفتاری، بڑے بھائی کا فیصلہ، یعقوب علیہ السلام کا صبر، آنکھوں کی بینائی، بھائیوں کی واپسی، یوسف کا انکشاف، قصۂ یوسف۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی بنیامین کو روکنے کی تدابیر


 

حصہ ہشتم: 



 بنیامین کو روکنے کی حکمت عملی اور بھائیوں کا الزام



---

حضرت یوسف علیہ السلام کی حکمت عملی


جب بھائی دوبارہ مصر آئے اور غلہ خرید کر واپس جانے لگے، تو یوسف علیہ السلام کی خواہش تھی کہ اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیں۔ مگر مصری قانون کے مطابق ایسا ممکن نہ تھا کہ کسی شخص کو بلا وجہ روکا جائے۔
چنانچہ یوسف علیہ السلام نے ایک تدبیر اختیار کی:

ہر بھائی کے اونٹ پر الگ الگ غلہ رکھا گیا۔

بنیامین کے اونٹ پر غلہ کے ساتھ ایک قیمتی شاہی برتن (جسے قرآن "سقايہ" اور "صواع الملک" کہتا ہے) خفیہ طور پر رکھ دیا گیا۔

یہ برتن سونے یا چاندی کا خاص پیمانہ تھا جو بادشاہ کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔



---

چوری کا اعلان اور الزام


جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو کچھ دیر بعد شاہی منادی نے پکارا:

> "اے قافلہ والو! تم چور ہو!"



یہ اعلان دراصل ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا، مگر عام کارندوں کو اس کی حقیقت معلوم نہ تھی۔

جب برتن محل میں نہ ملا تو شک سیدھا یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں پر گیا، کیونکہ وہی شاہی مہمان تھے۔

بھائیوں نے حیرت سے کہا: "ہم پر جھوٹا الزام کیوں لگا رہے ہو؟ ہم پہلے بھی ایمانداری کے ساتھ یہاں آئے تھے۔"


کارندوں نے جواب دیا کہ:

> "شاہی پیمانہ گم ہو گیا ہے، اور جو اسے واپس لائے گا اسے ایک اونٹ بھر غلہ انعام ملے گا۔"




---

برادران یوسف کی تلاشی


کارندوں نے پوچھا: "اگر تم میں سے کسی کے سامان سے یہ برتن نکلے تو اس کی سزا کیا ہوگی؟"
بھائیوں نے اپنے شریعت کے مطابق کہا:

> "جس کے سامان سے برتن نکلے، وہی شخص غلام بنا لیا جائے۔"



یہ سن کر تلاشی شروع ہوئی:

پہلے دوسرے بھائیوں کے سامان کی جانچ کی گئی، وہاں برتن نہ ملا۔

آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی گئی اور شاہی پیمانہ برآمد ہوا۔


یوں یوسف علیہ السلام کی حکمت کامیاب ہوئی اور بنیامین کو روکنے کا شرعی جواز پیدا ہو گیا۔


---

بھائیوں کا رویہ اور الزام تراشی


جب بنیامین کے سامان سے برتن نکلا تو باقی بھائیوں نے فوراً کہا:

> "اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو تعجب نہیں، اس کا بھائی یوسف بھی پہلے چوری کر چکا ہے۔"



یہ الزام دراصل ایک پرانا قصہ دہرانا تھا:

یوسف علیہ السلام کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کی پرورش پھوپھی کے پاس ہوئی۔

پھوپھی انہیں اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے ایک چال چلی:

اپنے قیمتی پٹکے کو یوسف کے کپڑوں میں باندھ دیا۔

پھر اعلان کیا کہ "میرا پٹکا چوری ہو گیا ہے۔"

تلاشی کے بعد جب وہ یوسف کے پاس سے ملا تو شرعی حکم کے مطابق یوسف کو پھوپھی کے پاس روک لیا گیا۔



یہی واقعہ "یوسف کی چوری" کے طور پر مشہور ہو گیا، حالانکہ حقیقت میں یہ محض ایک تدبیر تھی، نہ کہ اصل چوری۔


---

یوسف علیہ السلام کا صبر اور خاموشی


جب بھائیوں نے یہ الزام دہرا کر کہا کہ "یوسف بھی چوری کر چکا ہے"، تو یوسف علیہ السلام کے دل پر گہرا صدمہ ہوا۔

لیکن انہوں نے ضبط کیا، غصہ پی گئے، اور دل میں کہا:


> "یہ تمہاری بری جگہ ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، اور اللہ حقیقت کو خوب جانتا ہے۔"



یوسف علیہ السلام نے حقیقت ظاہر نہیں کی اور خاموشی اختیار کی، کیونکہ یہ سب کچھ اللہ کی حکمت کے مطابق ہو رہا تھا۔


---

حصہ ہشتم کے اہم سوالات (FAQ)


سوال 1: صواع الملک کیا تھا؟

جواب: ایک قیمتی برتن جو شاہی پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، ممکن ہے سونے یا چاندی کا ہو۔

سوال 2: یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے کیا تدبیر کی؟

جواب: انہوں نے شاہی پیمانہ بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا تاکہ قانون کے مطابق اسے روک سکیں۔

سوال 3: بھائیوں نے یوسف علیہ السلام پر "چوری" کا الزام کیوں لگایا؟

جواب: بچپن میں پھوپھی نے ایک تدبیر سے یوسف کو اپنے پاس رکھا تھا، جسے غلط طور پر چوری کا واقعہ بنا کر پیش کیا گیا۔

سوال 4: یوسف علیہ السلام نے الزام سن کر کیا ردعمل دیا؟

جواب: انہوں نے غصہ ضبط کیا اور حقیقت ظاہر نہ کی، کیونکہ یہ سب اللہ کی حکمت کا حصہ تھا۔


---

نتیجہ 


حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے شاہی پیمانہ ان کے سامان میں رکھوا دیا۔ تلاشی کے بعد برتن برآمد ہوا اور بھائیوں نے بنیامین پر الزام لگایا، بلکہ یوسف پر بھی پرانی "چوری" کی بات دہرا دی۔ یہ سب اللہ کی حکمت کے مطابق ہوا۔


--آپ نے مطالعہ کیا 


حضرت یوسف علیہ السلام، بنیامین کا واقعہ، صواع الملک، سقایہ، یوسف کی حکمت عملی، بھائیوں کا الزام، قیمتی برتن، تفسیر قرطبی، پھوپھی کا واقعہ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کا بنیامین کو بھیجنے سے انکار


---

حصہ ہفتم:


 حضرت یعقوب علیہ السلام کا بنیامین کو بھیجنے سے انکار اور یوسف علیہ السلام سے ملاقات



---

حضرت یعقوب علیہ السلام کا بیٹوں سے مکالمہ


جب بھائیوں نے مصر سے واپسی پر حضرت یعقوب علیہ السلام کو ساری روداد سنائی اور بتایا کہ مصر کے حکمران نے دوبارہ غلہ دینے کے لیے بنیامین کو ساتھ لانے کی شرط عائد کی ہے، تو حضرت یعقوب علیہ السلام سخت پریشان ہو گئے۔

انہوں نے فرمایا: "میں بنیامین کو تمہارے ساتھ ہرگز نہیں بھیجوں گا، کیونکہ یوسف کے بارے میں تم پر اعتماد کیا تھا لیکن تم اس کی حفاظت نہ کر سکے۔"

لیکن قحط کی شدت اور خاندان کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے بیٹوں نے بہت اصرار کیا۔


بالآخر حضرت یعقوب علیہ السلام نے شرط رکھی:

"تم سب اللہ کے نام پر مجھ سے عہد کرو کہ بنیامین کو ضرور واپس لاؤ گے، سوائے اس کے کہ ہم خود ہی گھیر لیے جائیں اور واپسی ناممکن ہو جائے۔"

سب نے قسم کھا کر وعدہ کیا، تب جا کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اجازت دی۔


یہاں سے ہمیں ایک اہم سبق ملتا ہے کہ مومن صرف ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ اصل بھروسہ اللہ پر ہی ہوتا ہے۔


---

بیٹوں کے لیے نصیحت: الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا


جب قافلہ روانہ ہوا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو ایک خاص نصیحت فرمائی:

"مصر شہر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا۔"


اس نصیحت میں کئی حکمتیں تھیں:


1. نظرِ بد سے حفاظت – چونکہ وہ سب حسین و جمیل اور تعداد میں زیادہ تھے، ایک ساتھ داخل ہونا لوگوں کی توجہ مبذول کرا سکتا تھا۔


2. سازشوں سے بچاؤ – الگ الگ داخل ہونے سے دشمنوں کی نگاہ میں کم پڑیں گے۔


3. عملی تدبیر – نبی کی سنت ہے کہ ظاہری اسباب بھی اختیار کیے جائیں لیکن دل اللہ پر توکل رکھے۔



یعقوب علیہ السلام نے ساتھ ہی واضح کر دیا کہ:

> "میری نصیحت تدبیر ہے، اصل فیصلہ اللہ کا ہے۔ اگر وہ کچھ اور چاہے تو کوئی تدبیر کام نہیں آ سکتی۔"




---

اللہ کی حکمت: یوسف علیہ السلام کی خاموشی


یہاں ایک حیرت انگیز نکتہ ہے کہ:

حضرت یعقوب علیہ السلام یوسف علیہ السلام کی جدائی میں اتنے غمگین تھے کہ روتے روتے بینائی ضائع کر بیٹھے۔

دوسری طرف یوسف علیہ السلام بھی اپنے والد سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ لیکن حیرت ہے کہ بیس سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود انہوں نے کبھی خبر نہیں بھیجی۔


اس کی وجہ صرف ایک تھی:

اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے یوسف علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ ابھی تک اپنی حقیقت ظاہر نہ کریں۔

یہ سب کچھ اللہ کی حکمت اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے امتحان کا حصہ تھا۔

جیسا کہ تفسیر قرطبی میں بیان ہے: اللہ اپنی حکمتوں کو سب سے بہتر جانتا ہے اور اس کے فیصلے ہمیشہ عین مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔



---

یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی ملاقات


جب بھائی مصر پہنچے اور یوسف علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئے، تو یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا حقیقی بھائی بنیامین بھی ان کے ساتھ ہے۔

آپ نے بھائیوں کو شاہی عزت و اکرام کے ساتھ ٹھہرایا۔

رہائش کا انتظام اس طرح کیا کہ ہر دو بھائیوں کو ایک کمرے میں رکھا گیا، لیکن بنیامین تنہا رہ گئے۔

یہ یوسف علیہ السلام کی حکمت تھی تاکہ انہیں موقع ملے کہ بنیامین سے تنہائی میں گفتگو کر سکیں۔


ملاقات کا منئظر


یہ دونوں بھائی تقریباً بیس یا اکیس سال بعد ملے تھے۔

یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو بتایا کہ کس طرح بھائیوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا اور پھر اللہ نے انہیں عزت و اقتدار عطا کیا۔

بنیامین نے اپنے دکھ بیان کیے کہ وہ بھی بھائیوں کے ظلم کا شکار رہا ہے۔

یوسف علیہ السلام نے اسے تسلی دی اور کہا: "اب غم کے دن ختم ہو گئے ہیں، اب تم میرے ساتھ رہو گے۔"


لیکن ایک رکاوٹ

یوسف علیہ السلام کی شدید خواہش تھی کہ بنیامین کو روک لیں۔

لیکن مصری قانون کے مطابق کسی غیر ملکی کو بلا وجہ روک لینا منع تھا۔

اس لیے یوسف علیہ السلام نے ایک حکیمانہ تدبیر سوچنا شروع کی جس کے ذریعے بنیامین کو اپنے پاس رکھ سکیں اور بھائیوں کو اصل حقیقت بھی نہ کھلے۔



---

حصہ ہفتم کے اہم سوالات (FAQ)


سوال 1: حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو بھیجنے سے کیوں انکار کیا؟

جواب: یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے بعد وہ بھائیوں پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور بنیامین کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔

سوال 2: حضرت یعقوب علیہ السلام نے الگ الگ دروازوں سے داخل ہونے کی نصیحت کیوں کی؟

جواب: تاکہ وہ نظرِ بد اور دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں، لیکن اصل حفاظت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

سوال 3: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد کو اپنی حقیقت کیوں نہ بتائی؟

جواب: اللہ نے وحی کے ذریعے انہیں روکے رکھا تاکہ یعقوب علیہ السلام کا امتحان مکمل ہو۔

سوال 4: یوسف اور بنیامین کی ملاقات کتنے عرصے بعد ہوئی؟

جواب: تقریباً بیس سے اکیس سال بعد۔

سوال 5: یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو روکنے کے لیے کیا تدبیر سوچ رکھی تھی؟

جواب: انہوں نے ایک حکمت عملی تیار کی جس کا ذکر اگلے حصے (پیالے کا واقعہ) میں آتا ہے۔


---

نتیجہ 


حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے سے انکار کیا، لیکن عہد لینے کے بعد اجازت دی۔ مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی طویل جدائی کے بعد ملاقات ہوئی، مگر یوسف نے حقیقت ظاہر نہ کی اور ایک حکیمانہ تدبیر کے ذریعے بھائی کو اپنے پاس روکنے کی سوچ رکھی۔


---

آپ نے مطالعہ کیا 


حضرت یعقوب علیہ السلام، بنیامین کا سفر، حضرت یوسف علیہ السلام، دربار یوسفی، قحط سالی، بھائیوں کا عہد، الگ دروازوں سے داخل ہونا، وحی الٰہی، یوسف اور بنیامین کی ملاقات۔

بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

مصر میں قحط اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اپنے بھائیوں سے ملاقات


 

حضرت یوسف علیہ السلام – بھائیوں کی مصر آمد اور بنیامین کا ذکر


تعارف


قحط سالی کے دنوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کی دور اندیشی اور حکمت عملی کے باعث مصر میں غلہ محفوظ رہا۔ اس دوران حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کو بھی غلہ خریدنے کے لیے مصر جانا پڑا، جہاں ان کی ملاقات یوسف علیہ السلام سے ہوئی مگر وہ اپنے بھائی کو پہچان نہ سکے۔


---

قحط سالی اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا حکم


مصر اور اس کے گردونواح میں سخت قحط پڑا۔


حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں سے فرمایا کہ عزیزِ مصر کے پاس غلہ موجود ہے، تم وہاں سے غلہ خرید کر لاؤ۔

بھائیوں نے قافلہ تیار کیا اور مصر روانہ ہو گئے۔



---

دربار یوسفی میں پیشی 


بھائی مصر پہنچے اور یوسف علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں فوراً پہچان لیا لیکن بھائی یوسف علیہ السلام کو نہ پہچان سکے کیونکہ کنویں والا واقعہ کو گزرے کئی دہائیاں بیت چکی تھیں۔



---

جاسوسی کا الزام اور گفتگو


تورات کے بیان کے مطابق برادران یوسف پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا۔

اس موقع پر یوسف علیہ السلام نے ان سے گفتگو کی اور ان کے والد، بھائی بنیامین اور گھر کے حالات دریافت کیے۔

یوسف علیہ السلام نے ان کی مرضی کے مطابق غلہ بھروایا اور ساتھ یہ شرط بھی رکھی کہ آئندہ بار جب آؤ تو بنیامین کو ضرور ساتھ لانا۔



---

پونجی کی واپسی کا انتظام


حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ بھائیوں کی ادائیگی خاموشی کے ساتھ ان کے کجاووں میں واپس رکھ دی جائے۔

اس حکمت میں کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

ممکن ہے بھائی دوبارہ غلہ لینے کے لیے نہ آ سکیں۔

والد اور بھائیوں سے قیمت لینا یوسف علیہ السلام کو گوارا نہ تھا۔

اس سے دوبارہ ملاقات کا موقع میسر آ سکے۔




---


کنعان واپسی اور یعقوب علیہ السلام سے گفتگو


بھائی واپس کنعان پہنچے اور سارا واقعہ سنایا۔

عرض کیا: عزیزِ مصر نے کہا ہے کہ آئندہ بنیامین کو ساتھ لاؤ ورنہ غلہ نہیں ملے گا۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا یوسف کے معاملے میں کیا تھا؟ اصل حفاظت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

جب بھائیوں نے سامان کھولا تو دیکھا کہ ان کی پونجی واپس کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا: اباجان! ہمیں مزید جانے کی اجازت دیں، غلہ بھی لائیں گے اور بنیامین کی حفاظت کی ضمانت بھی دیتے ہیں۔



---

حصہ ششم کے اہم سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو مصر بھیجنے کا حکم کیوں دیا؟

جواب: کیونکہ قحط سالی میں عزیز مصر کے پاس غلہ ذخیرہ موجود تھا۔

سوال 2: یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو پہچان لیا لیکن وہ کیوں نہ پہچان سکے؟

جواب: یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالے ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی تھیں اور وہ مصر کے بادشاہی منصب پر فائز تھے، اس لیے بھائی انہیں پہچان نہ سکے۔

سوال 3: یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو کیا شرط رکھی؟

جواب: کہ اگلی بار جب آؤ تو اپنے بھائی بنیامین کو ضرور ساتھ لاؤ۔

سوال 4: پونجی واپس کرنے کی کیا حکمت تھی؟

جواب: تاکہ بھائی دوبارہ مصر آنے پر مجبور ہوں اور بنیامین سے ملاقات ممکن ہو سکے، اور شاید یوسف علیہ السلام نے والد اور بھائیوں سے قیمت لینا پسند نہ کیا۔

سوال 5: یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو بھیجنے پر فوراً کیوں رضا مندی ظاہر نہ کی؟

جواب: کیونکہ وہ پہلے ہی یوسف کے معاملے میں غم زدہ تھے اور بھائیوں پر مکمل بھروسہ نہ کرتے تھے۔


---
حضرت یوسف علیہ السلام، بھائیوں کی آمد مصر، قحط سالی کا زمانہ، یوسف علیہ السلام اور بنیامین، دربار یوسفی، یعقوب علیہ السلام کے بیٹے، پونجی کی واپسی، عزیز مصر۔
۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی قحط کے دنوں میں مصر غلہ لینے گئے۔ یوسف علیہ السلام نے انہیں پہچان لیا مگر وہ نہ پہچان سکے۔ واپسی پر یعقوب علیہ السلام سے بنیامین کو ساتھ لانے کا مطالبہ کیا گیا۔

بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

حضرت یوسف علیہ السلام کی رہائ ی اور شادی


 


بادشاہ نے کہا کہ اس کو (جلد) میرے پاس لاؤ کہ میں اس کو اپنے کاموں کے لیے مخصوص کرلوں یوسف (علیہ السلام) جب بایں رعنائی و دلبری، بایں عصمت و پاکبازی اور بایں عقل و دانش زندان سے نکل کر بادشاہ کے دربار میں تشریف لائے، بات چیت ہوئی تو بادشاہ حیران رہ گیا کہ اب تک جس کی راستبازی، امانت داری اور وفاء عہد کا تجربہ کیا تھا وہ عقل و دانش اور حکمت و فطانت میں بھی اپنی نظیر آپ ہے اور مسرت کے ساتھ کہنے لگا، ” انک الیوم لدینا مکین امین “ پھر اس نے دریافت کیا کہ میرے خواب میں جس قحط سالی کا ذکر ہے اس کے متعلق مجھ کو کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں ؟ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جواب دیا۔ قال اجعلنی۔۔ علیم، یوسف (علیہ السلام) نے کہا اپنی مملکت کے خزانوں پر آپ مجھے مختار کیجئے میں حفاظت کرسکتا ہوں اور اس کام کا کرنے والا ہوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی تمام مملکت کا امین و کفیل بنادیا اور شاہی خزانوں کی کنجیاں ان کے حوالہ کرکے مختار عام کر دیا۔


یوسف علیہ السلام اور آسناتھ کے رشتہ کا ذکر بائبل کی تین آیات میں ہوا ہے۔ ان کے تعلقات کا ذکر پہلی بار پیدائش 41: 45 میں کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فرعون نے اون کے پجاری پوٹفیرا کی بیٹی، آسناتھ کو جوزف(یوسف علیہ السلام) کو اپنی بیوی کے طور پر دیا تھا۔ بعد میں یہ پیدائش 41:50 میں ذکر ہوا ہے کہ قحط سالوں سے پہلے یوسف کے دو بیٹے آسناتھ کے ساتھ تھے۔ ان دو بیٹوں کا نام منسیٰ تھا، جو پہلا پیدا ہوا تھا اور دوسرے بیٹے کا نام افرائیم تھا، جو دوسرا پیدا ہوا تھا۔ بعد میں ابتدا 46:20 میں جوزف(یوسف علیہ السلام) کے خاندان میں جوزف اور آسناتھ کا ذکر ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ مصر میں، یوسف کے دو بیٹے تھے جن کا نام منسی اور افرائیم تھا اور اون کا پجاری پوٹفیرا کی بیٹی آسناتھ نے جوزف کے دو بیٹوں کو جنم دیا تھا۔

عزیز مصر اور خواب کی تعبیر


 

---


حضرت یوسف علیہ السلام – بادشاہ کا خواب اور رہائی


تعارف


حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں بھی اللہ کی وحدانیت کی تبلیغ کرتے رہے۔ اسی دوران مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جس نے دربار کے تمام علماء اور جادوگروں کو حیران کر دیا۔ خواب کی تعبیر صرف حضرت یوسف علیہ السلام نے بتائی، جس کے نتیجے میں آپ کی رہائی اور عزت افزائی ہوئی۔



---


بادشاہ کا خواب


بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔


پھر سات سبز خوشے اور سات سوکھے خوشے دیکھے۔


یہ خواب مصر کی معیشت اور مستقبل سے متعلق تھا۔




---


درباریوں کی بے بسی


بادشاہ کے دربار کے تمام معبر اور جادوگر خواب کی تعبیر نہ بتا سکے۔


ہر کوئی اسے ایک الجھا ہوا اور بے معنی خواب قرار دیتا رہا۔




---


ساقی کو یوسف علیہ السلام یاد آنا


قید سے رہائی پانے والا ساقی بادشاہ کے دربار میں موجود تھا۔


اس نے یوسف علیہ السلام کو یاد کیا اور کہا کہ ایک قیدی خوابوں کی بہترین تعبیر بتاتا ہے۔


بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ یوسف علیہ السلام سے خواب کی تعبیر معلوم کرے۔




---


یوسف علیہ السلام کی تعبیر


حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:


سات موٹی گائیں اور سات سبز خوشے → سات سال خوشحالی۔


سات دبلی گائیں اور سات سوکھے خوشے → سات سال قحط سالی۔


نصیحت: خوشحالی کے سالوں میں غلہ ذخیرہ کرو تاکہ قحط کے دنوں میں کام آئے۔




---


بادشاہ کی حیرت اور یوسف علیہ السلام کی رہائی


بادشاہ یوسف علیہ السلام کی دانشمندی اور علم سے بے حد متاثر ہوا۔


آپ کو جیل سے رہا کیا گیا۔


بادشاہ نے آپ کو دربار میں عزت بخشی اور مصر کی معیشت کا نگران مقرر کیا۔




---


حصہ پنجم کے اہم سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: بادشاہ نے اپنے خواب میں کیا دیکھا؟

جواب: سات موٹی گائیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات سبز خوشے کے ساتھ سات سوکھے خوشے۔


سوال 2: بادشاہ کے دربار میں خواب کی تعبیر کیوں نہ بتائی جا سکی؟

جواب: تمام درباری اور جادوگر اسے ایک الجھا ہوا خواب سمجھ کر عاجز آگئے۔


سوال 3: یوسف علیہ السلام کو کس نے بادشاہ کے خواب کے بارے میں بتایا؟

جواب: وہ ساقی جس نے قید سے رہائی پائی تھی، یوسف علیہ السلام کو یاد کرکے بادشاہ کو بتایا۔


سوال 4: خواب کی تعبیر کیا تھی؟

جواب: سات سال خوشحالی کے بعد سات سال قحط آئیں گے۔ اس لیے خوشحالی کے دنوں میں غلہ جمع کرنا ضروری ہے۔


سوال 5: خواب کی تعبیر کے بعد یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا ہوا؟

جواب: بادشاہ نے آپ کو جیل سے رہا کیا اور مصر کی معیشت کی ذمہ داری دی۔



---


نتیجہ 


حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے بادشاہ کا خواب تعبیر کیا،

 سات سال خوشحالی اور سات سال قحط کی پیشن گوئی کی۔ اس حکمت سے آپ کی رہائی اور عزت افزائی ہوئی

آپ نے مطالعہ کیا 

حضرت یوسف علیہ السلام، بادشاہ کا خواب، خواب کی تعبیر، سات موٹی گائیں، سات دبلی گائیں، سات سال خوشحالی، سات سال قحط، یوسف علیہ السلام کی رہائی، قرآن کا واقعہ یوسف، مصر کی معیشت۔

۔بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

حضرت یوسف علیہ السلام کی قیدخانہ میں تبلیغ


 


حضرت یوسف علیہ السلام – قید خانے میں تبلیغ کا سلسلہ


تعارف


حضرت یوسف علیہ السلام کو بے گناہی کے باوجود قید خانے میں ڈال دیا گیا، لیکن وہاں بھی آپ نے صبر، عفت اور اللہ کی توحید کا پیغام عام کیا۔ قیدی آپ کی نیک نامی اور علم سے متاثر تھے۔ یہ حصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، اللہ کی دعوت کبھی رکی نہیں۔



---


قید خانہ کے واقعات


دو نوجوان (بادشاہ کا ساقی اور باورچی) قید خانے میں داخل ہوئے۔


بادشاہ کے کھانے اور مشروب میں زہر ملانے کی سازش ناکام ہوئی۔


حقیقت سامنے آنے پر دونوں کو قید کی سزا ملی۔




---


حضرت یوسف علیہ السلام کی نیک نامی


قید خانے میں سب قیدی اور داروغہ یوسف علیہ السلام کا احترام کرتے تھے۔


آپ ضرورت مندوں کی مدد کرتے اور شفقت سے پیش آتے۔


اللہ نے آپ کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا۔




---


خواب اور اس کی تعبیر


ساقی نے خواب میں دیکھا کہ وہ انگور نچوڑ رہا ہے۔


باورچی نے خواب دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں اور پرندے انہیں کھا رہے ہیں۔


یوسف علیہ السلام نے دونوں خواب سننے کے بعد تبلیغ کا آغاز کیا۔




---


یوسف علیہ السلام کی تبلیغ اور توحید کی دعوت


آپ نے کہا کہ میں ان لوگوں کی ملت کا پیروکار ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔


میں اپنے آباء ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب علیہم السلام کی ملت پر ہوں۔


اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، حکومت اور حکم صرف اسی کا ہے۔


یہی سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزار نہیں ہوتے۔




---


خواب کی تعبیر


ساقی رہا ہو کر دوبارہ بادشاہ کی خدمت کرے گا۔


باورچی کو سولی دی جائے گی اور پرندے اس کے سر کو نوچیں گے۔


حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: "یہ فیصلہ ہو چکا ہے۔"




---


حصہ چہارم کے اہم سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید میں آنے والے دو نوجوان کون تھے؟

جواب: ایک بادشاہ کا ساقی (شراب پلانے والا) اور دوسرا شاہی باورچی (نان پز) تھا۔


سوال 2: ان دونوں کو جیل کیوں بھیجا گیا؟

جواب: بادشاہ کو زہر دینے کی سازش میں شامل ہونے کے سبب۔ ساقی شک میں پکڑا گیا اور باورچی اصل مجرم تھا۔


سوال 3: یوسف علیہ السلام نے قید خانے میں کس بات کی تبلیغ کی؟

جواب: اللہ کی وحدانیت، توحید، شرک کی تردید اور اپنے آباء کی ملت کی پیروی۔


سوال 4: دونوں نوجوانوں نے کیا خواب دیکھے؟

جواب: ساقی نے دیکھا کہ وہ انگور نچوڑ رہا ہے، اور باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں اور پرندے انہیں کھا رہے ہیں۔


سوال 5: ان خوابوں کی تعبیر کیا تھی؟

جواب: ساقی رہا ہو کر بادشاہ کی خدمت کرے گا جبکہ باورچی کو سولی دی جائے گی۔



---


نتیجہ 


حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں بھی اللہ کی توحید کی دع

وت دیتے رہے۔ ساقی اور باورچی کے خواب کی تعبیر، یوسف علیہ السلام کی تبلیغ اور صبر کا سبق۔


ابھی مطالعہ کیا 

حضرت یوسف علیہ السلام، قید خانہ، یوسف کے خواب کی تعبیر، بادشاہ کا ساقی، شاہی باورچی، قرآن کا قصہ یوسف، یوسف علیہ السلام کی تبلیغ، یوسف علیہ السلام قید خانے میں، قصص الانبیاء، توحید کی دعوت۔

---

بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

حضرت یوسف علیہ السلام اور قید خانے کا واقعہ







 


حضرت یوسف علیہ السلام کا قید خانہ کا واقعہ


تعارف


حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی صبر، عفت اور تقویٰ کی عملی تصویر ہے۔ عزیز مصر کی بیوی اور شاہی عورتوں کے فتنوں کے باوجود آپ نے ثابت قدمی اور پاکدامنی کا مظاہرہ کیا۔ یہ حصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیاوی آزمائشوں میں اللہ پر بھروسہ ہی اصل کامیابی ہے۔


---

الزام اور حقیقت کا انکشاف


عزیز مصر کی بیوی نے یوسف علیہ السلام پر جھوٹا الزام لگایا۔

شہادت کے لیے یوسف کا پیراہن دیکھا گیا۔

جب قمیص پیچھے سے چاک نکلا تو یوسف علیہ السلام کی سچائی ظاہر ہو گئی۔



---

عورتوں کا فتنہ اور یوسف علیہ السلام کی عظمت


شاہی خاندان کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر بے ساختہ کہا: "یہ بشر نہیں، بلکہ فرشتہ ہے۔"

اس کے باوجود یوسف علیہ السلام نے ہر آزمائش میں تقویٰ کو ترجیح دی۔

یوسف علیہ السلام نے دعا کی: "اے میرے رب! قید مجھے ان عورتوں کی دعوتِ گناہ سے زیادہ محبوب ہے۔"



---

قید خانہ کا فیصلہ


عورتوں کی سازش اور شہر میں چرچے کے باعث یوسف علیہ السلام کو جیل بھیج دیا گیا۔

بے قصور ہونے کے باوجود آپ نے صبر اور رضا بالقضا کا عملی مظاہرہ کیا۔

قید میں بھی آپ نے اللہ کی طرف رجوع اور توکل کا درس دیا۔



---

حصہ سوم کے اہم سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: عزیز مصر کی بیوی نے یوسف علیہ السلام پر کیا الزام لگایا؟

جواب: اس نے جھوٹا الزام لگایا کہ یوسف علیہ السلام نے اس پر بری نظر ڈالی، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔

سوال 2: یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کیسے ثابت ہوئی؟

جواب: گواہی یہ تھی کہ اگر پیراہن سامنے سے چاک ہے تو عورت سچی، اور اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسف سچے۔ قمیص پیچھے سے چاک نکلی، یوں یوسف علیہ السلام بے گناہ ثابت ہوئے۔

سوال 3: شاہی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر کیا کہا؟

جواب: انہوں نے کہا کہ یہ انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے، کیونکہ یوسف علیہ السلام کا حسن بے مثال تھا۔

سوال 4: یوسف علیہ السلام نے عورتوں کے فتنوں سے بچنے کے لیے کیا دعا کی؟

جواب: آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ قید مجھے ان کے گناہ کی دعوت سے زیادہ محبوب ہے۔

سوال 5: یوسف علیہ السلام کو جیل کیوں بھیجا گیا؟

جواب: یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کے باوجود عزت بچانے کے لیے عزیز مصر اور اس کے درباریوں نے آپ کو قید کر دیا۔


---

میٹا ڈسکرپشن


حضرت یوسف علیہ السلام کے قید خانے کا واقعہ: عزیز مصر کی بیوی کے فتنہ، عورتوں کی آزمائش، یوسف کی دعا اور بے گناہ ہو کر بھی قید کا سفر۔ صبر، عفت اور تقویٰ کا عظیم سبق۔

آپ نے مطالعہ کیا 

حضرت یوسف علیہ السلام، یوسف علیہ السلام کا قید خانہ، یوسف کی دعا، عزیز مصر کی بیوی، یوسف کا واقعہ، قرآن کی کہانیاں، صبر و تقویٰ، یوسف علیہ السلام کی آزمائش، یوسف کا حسن، قرآن کا قصہ یوسف۔
 
بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

 

حضرت یوسف علیہ السلام کی قافلے کے ساتھ روانگی



حضرت یوسف علیہ السلام : حصہ دوم 

"حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے حسد کی وجہ سے کنویں میں ڈالا۔ قافلے والوں نے نکال کر غلام بنایا اور مصر لے گئے، جہاں عزیزِ مصر نے آپ کو خرید لیا۔ آپ کے حسن و عصمت کی بےمثال داستان اور عزیز کی بیوی کی آزمائش کا ذکر قرآن میں تفصیل سے موجود ہے۔ اس واقعہ سے صبر، تقویٰ اور ایمان کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔"



حضرت یوسف علیہ السلام کا کنویں سے نکلنا اور مصر کا سفر


قافلے کے ہاتھوں حضرت یوسف علیہ السلام کی رہائی


یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے حسد کی وجہ سے کنویں میں ڈال دیا تھا۔ قافلے والے اسماعیلی مدیانی لوگ وہاں سے گزرے تو انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکالا اور غلام بنا لیا۔


بھائیوں کی سازش اور قافلے کی حقیقت


کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے خود بیچا، لیکن قرآن اور معتبر روایات سے یہ بات ثابت نہیں۔ اصل حقیقت یہی ہے کہ قافلے والوں نے ہی یوسف علیہ السلام کو نکالا اور غلام بنا کر اپنے ساتھ مصر لے گئے۔



---


حضرت یوسف علیہ السلام کی غلامی اور فروخت


قافلہ یوسف علیہ السلام کو مصر لایا اور بازار میں غلاموں کی طرح پیش کیا۔ ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر لوگ بڑھ چڑھ کر قیمت لگانے لگے۔


عزیز مصر کی خریداری


آخرکار اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو عزیزِ مصر کے مقدر میں لکھا تھا۔ عزیز نے بھاری قیمت ادا کرکے آپ کو خرید لیا۔



---


حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن و جمال


حضرت یوسف علیہ السلام جوانی میں جمال و رعنائی کا پیکر تھے۔ آپ کے چہرے کی روشنی سورج اور چاند کی مانند تھی۔


عصمت و حیا کا پیکر


یوسف علیہ السلام نہ صرف خوبصورت تھے بلکہ حیا و عصمت میں بھی بے مثال تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والی آزمائش میں آپ نے اللہ کی پناہ لی۔



---


عزیز مصر کی بیوی کا فتنہ


عزیز مصر کی بیوی حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے بے قابو ہوگئی اور انہیں بہکانے کی کوشش کرنے لگی۔


دروازے بند اور آزمائش کی گھڑی


اس نے تمام دروازے بند کر دیے اور یوسف علیہ السلام کو گناہ پر آمادہ کرنا چاہا، لیکن آپ نے فرمایا:


> "پناہ بخدا! میں اپنے رب کی نافرمانی کیسے کر سکتا ہوں؟"





---


الزام اور بےگناہی کا ثبوت


جب معاملہ کھل گیا تو عزیز مصر کی بیوی نے الزام یوسف علیہ السلام پر لگا دیا۔


قمیص کا پھٹ جانا


خدا نے یوسف علیہ السلام کی بےگناہی یوں ظاہر کی کہ ان کا کر

تا پیچھے سے پھٹا ہوا پایا گیا، جس سے سچ سب پر عیاں ہوگیا۔


---


✨ FAQ سوالات اور جوابات


سوال 1: حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے کس نے نکالا؟

جواب: حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے ایک اسماعیلی مدیانی قافلے نے نکالا اور غلام بنا لیا، پھر وہی لوگ انہیں مصر لے گئے۔


سوال 2: کیا حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے بیچا تھا؟

جواب: بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ بھائیوں نے بیچا، لیکن قرآن و روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قافلے والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو نکالا اور فروخت کیا۔


سوال 3: حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر میں کس نے خریدا؟

جواب: عزیزِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بھاری قیمت کے عوض خریدا۔


سوال 4: حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال کا کیا مقام تھا؟

جواب: حضرت یوسف علیہ السلام حسن و جمال میں بے مثال تھے، ان کے چہرے کی روشنی سورج و چاند کی طرح منور تھی اور وہ عصمت و حیا کے پیکر تھے۔


سوال 5: عزیزِ مصر کی بیوی کا یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟

جواب: عزیزِ مصر کی بیوی نے یوسف علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی، مگر آپ نے اللہ کی پناہ لیتے ہوئے انکار کیا اور ثابت قدمی دکھائی۔


سوال 6: یوسف علیہ السلام پر لگائے گئے الزام کی حقیقت کیا تھی؟

جواب: عزیز کی بیوی نے الزام لگایا، لیکن یوسف علیہ السلام نے حقیقت بیان کی کہ یہ عورت خود ان کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھتی تھی۔


سوال 7: یوسف علیہ السلام کی بےگناہی کیسے ثابت ہوئی؟

جواب: عورت کے چچا زاد بھائی نے کہا کہ یوسف کا کرتا دیکھو؛ اگر آگے سے چاک ہے تو عورت سچ بول رہی ہے، اور اگر پیچھے سے چاک ہے تو یوسف بےگناہ ہیں۔



ابھی مطالعہ کیا 

حضرت یوسف علیہ السلام قافلہ

یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکالنا

یوسف علیہ السلام مصر میں

عزیز مصر اور یوسف علیہ السلام

یوسف علیہ السلام حسن و جمال

یوسف علیہ السلام قید کا واقعہ

یوسف علیہ السلام اور عزیز کی بیوی

قرآن میں یوسف علیہ السلام کا قصہ

یوسف علیہ السلام کی بےگناہی

یوسف علیہ السلام غلامی


بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

---

حضرت یوسف علیہ السلام




حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا واقعہ


حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے


حضرت یعقوب علیہ السلام کے کل بارہ بیٹے تھے، اور ہر بیٹے سے ایک بڑا خاندان وجود میں آیا۔ چونکہ حضرت یعقوب کا لقب اسرائیل تھا، اس لیے ان کی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔

دس بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی پہلی زوجہ لیا بنت لیّان کے بطن سے پیدا ہوئے۔

بعد میں حضرت یعقوب علیہ السلام نے لیا کی بہن راحیل بنت لیّان سے نکاح کیا، جن سے حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت بنیامین پیدا ہوئے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ راحیل کا انتقال بنیامین کی پیدائش کے وقت ہوا۔


یعنی حضرت یوسف اور بنیامین آپس میں سگے بھائی تھے، جبکہ باقی دس بھائی علاتی تھے۔


---

یوسف علیہ السلام کا خواب


بچپن میں حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک خواب دیکھا:

> "میں نے خواب میں گیارہ ستارے، سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔"
یہ خواب ایک بڑی حقیقت اور عظیم مقام کی بشارت تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب کی تعبیر کو سمجھ لیا اور یوسف کو نصیحت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتائیں۔




---

بھائیوں کا حسد


یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ یوسف علیہ السلام سے غیر معمولی محبت کرتے ہیں۔ اس پر ان کے دلوں میں حسد پیدا ہوا۔
وہ کہنے لگے:

> "ہمارے والد یوسف کو ہم پر زیادہ چاہتے ہیں حالانکہ ہم ایک بڑی جماعت ہیں۔ یہ تو کھلی ناانصافی ہے۔"



پھر انہوں نے منصوبہ بنایا کہ یا تو یوسف کو قتل کر دیا جائے یا کسی دور دراز جگہ پھینک دیا جائے تاکہ والد کی محبت صرف ان کے لیے مخصوص ہو جائے۔


---

یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالنا


آخرکار انہوں نے مشورہ کیا کہ قتل کے بجائے یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈال دیا جائے۔ ایک دن وہ یوسف کو کھیلنے کے بہانے اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا۔


---

قافلے والوں کو ملنا


اللہ کے حکم سے کچھ قافلہ والے وہاں آئے اور پانی کے لیے ڈول ڈالا۔ یوسف علیہ السلام اس ڈول میں باہر آگئے۔ قافلے والوں نے انہیں لے لیا اور مصر جا کر بیچ دیا۔


---

عزیزِ مصر کے گھر قیام


یوسف علیہ السلام کو مصر کے عزیز (وزیر) نے خریدا اور اپنی بیوی کے ساتھ کہا کہ اس بچے کو عزت دو، ممکن ہے یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔


---

یہاں سے حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جو ان کی جوانی، آزمائش، قید اور پھر بادشاہت کے واقعات پر مشتمل ہے۔


حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں سوالات و جوابات (FAQ)


❓ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کا نام کیا تھا؟


جواب: حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام تھے، جنہیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔


---

❓ حضرت یعقوب علیہ السلام کے کتنے بیٹے تھے؟


جواب: حضرت یعقوب علیہ السلام کے کل بارہ بیٹے تھے۔ انہی بارہ خاندانوں کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کون تھیں؟


جواب: حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ کا نام راحیل بنت لیّان تھا، جو حضرت بنیامین کی بھی والدہ تھیں۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب کیا تھا؟


جواب: حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب میں گیارہ ستارے، سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ خواب ان کے بلند مقام کی علامت تھا۔


---

❓ یوسف علیہ السلام کو کنویں میں کیوں ڈالا گیا؟


جواب: ان کے بھائی حسد کی وجہ سے انہیں کنویں میں ڈال آئے تاکہ ان کے والد کی محبت صرف باقی بھائیوں کے ساتھ مخصوص ہو جائے۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کس نے خریدا؟


جواب: قافلے والوں نے یوسف علیہ السلام کو مصر میں بیچ دیا، اور انہیں مصر کے وزیر (عزیزِ مصر) نے خریدا۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کو قید میں کیوں ڈالا گیا؟


جواب: عزیزِ مصر کی بیوی نے یوسف علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی، مگر یوسف علیہ السلام نے انکار کیا۔ جھوٹے الزام کی وجہ سے انہیں قید کر دیا گیا۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں کس منصب پر فائز ہوئے؟


جواب: خوابوں کی سچی تعبیر دینے کی وجہ سے یوسف علیہ السلام کو مصر کے بادشاہ نے وزیر خزانہ بنا دیا۔


---

❓ یوسف علیہ السلام کے بھائی کب اور کیسے دوبارہ ملے؟


جواب: قحط سالی کے زمانے میں یوسف علیہ السلام کے بھائی اناج لینے مصر آئے۔ یہاں یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیا اور بعد میں اپنے تمام بھائیوں کو اپنی حقیقت بتا دی۔


---

❓ حضرت یوسف علیہ السلام کا وصال کب ہوا؟


جواب: حضرت یوسف علیہ السلام کا وصال 110 برس کی عمر میں ہوا اور انہیں مصر میں دفن کیا گیا۔ بعد میں ان کا جسد مبارک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیت المقدس منتقل کیا۔

ابھی مطالعہ کیا 



حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ


یوسف علیہ السلام کے بھائی


یوسف علیہ السلام کا خواب


یوسف علیہ السلام کنویں کا واقعہ


یوسف علیہ السلام قید


یوسف علیہ السلام وزیر خزانہ


یوسف علیہ السلام قرآن میں


حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے


حضرت یوسف اور بنیامین


قصص الانبیاء یوسف علیہ السلام



بقیہ حصہ اگلے بلاگ میں 

حضرت یعقوب علیہ السلام کا واقع


حضرت یعقوب (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کا واقعہ، ان کی اولاد، صبر و دعا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیل سے پڑھی


حضرت یعقوب (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کا واقعہ


حضرت یعقوب (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کا تعارف


حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور نبوت سے نوازا اور آپ اپنی اولاد کے ذریعے توحید کا پیغام پہنچاتے رہے۔


بنو اسرائیل کی اصل


حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ انہی سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔


دس بیٹے پہلی بیوی سے


یوسف علیہ السلام اور بنیامین دوسری بیوی سے



یہی خاندان آگے چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں مصر سے نکل کر نجات پایا۔


حضرت یعقوب (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) اور قرآن مجید


قرآن میں یعقوب علیہ السلام کا ذکر کئی جگہ آیا ہے:


سورہ بقرہ (آیت 136) میں ان کا ذکر دیگر انبیاء کے ساتھ آیا۔


سورہ یوسف میں ان کا واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔



حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب اور حضرت یعقوب کی بصیرت


جب حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند انہیں سجدہ کر رہے ہیں تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے یوسف کو خاص مقام کے لیے منتخب کیا ہے۔ لیکن آپ نے یوسف کو تنبیہ کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا، کیونکہ حسد کی آگ نقصان دہ ہو سکتی ہے۔


حضرت یوسف (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کا امتحان اور حضرت یعقوب کی صبر آزما زندگی


یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کی جدائی اور بعد میں بنیامین کی قید کا غم بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ قرآن میں ان کا قول آیا:

"فَصَبْرٌ جَمِيلٌ" (یعنی صبر ہی بہترین سہارا ہے)


حضرت یعقوب (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کی دعائیں اور اللہ پر بھروسہ

انہوں نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھا اور اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے رہے۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام سے ملاقات کی خوشخبری دی اور ان کی بینائی

 بھی واپس عطا کی 


❓ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں اکثر پوچھے جانے والے سوالات


1. حضرت یعقوب (عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ) کون تھے؟


حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی اور آپ کو صبر، حلم اور اللہ پر کامل بھروسے کی خصوصیت عطا کی گئی۔


2. حضرت یعقوب علیہ السلام کے کتنے بیٹے تھے؟


حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ انہی بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔


3. حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین حضرت یعقوب کے کون سے بیٹے تھے؟


حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت بنیامین، حضرت یعقوب علیہ السلام کی دوسری بیوی سے پیدا ہوئے اور یہ دونوں حقیقی بھائی تھے۔


4. قرآن میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر کہاں ملتا ہے؟


حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر ہے:


سورہ بقرہ (آیت 136)


سورہ آل عمران (آیت 84)


سورہ نساء (آیت 163)


اور تفصیل سے سورہ یوسف میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔



5. حضرت یعقوب علیہ السلام نے صبر کیسے کیا؟


حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی اور بعد میں بنیامین کی گرفتاری کا غم بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ ان کا مشہور جملہ قرآن میں آیا ہے:

"فَصَبْرٌ جَمِيلٌ" (یعنی بہترین صبر ہی سہارا ہے)۔


6. حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب کیا تھا؟


حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا، اور آپ کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔


7. حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کہاں ہوئی؟


روایات کے مطابق حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات مصر میں ہوئی، لیکن ان کی وصیت پر آپ کو فلسطین (الخلیل، بیت المقدس کے قریب) میں حضرت ابراہی

م علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔


حضرت یعقوب علیہ السلام کا واقعہ

اس بلاگ میں آپ نے مطالعہ کیا 

حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد


حضرت یعقوب اور حضرت یوسف


بنو اسرائیل کی اصل


یعقوب علیہ السلام قرآن میں

پیر، 28 اپریل، 2025

حضرت لوط علیہ السلام

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا واقعہ قرآن و سنت کی روشنی میں۔ ان کے پیغام، انکار کرنے والی قوم کی برائیاں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی تفصیلات۔ اس بلاگ میں آپ سیکھیں گے کہ یہ واقعہ ہمارے لیے کیا سبق رکھتا ہے۔








حضرت لوط علیہ السلام کا تعارف


حضرت لوط علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر نبی تھے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور اپنے چچا کے ساتھ عراق سے فلسطین ہجرت کیے۔ بعد ازاں اللہ نے انہیں قومِ سدوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔

اللہ تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کو خاص ذمہ داری دی کہ وہ اپنی قوم کو شرک، بدکاری اور فحاشی سے روکیں اور انہیں توحید اور پاکیزگی کی طرف بلائیں۔


---

قوم لوط کی اخلاقی پستی


قوم لوط دنیا کی پہلی قوم تھی جس نے ایک ایسی برائی ایجاد کی جو انسانی فطرت کے خلاف تھی۔

ان کی برائیاں:


مرد مردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھتے تھے (عملِ قوم لوط)

راہ گیروں کو لوٹتے اور ان پر ظلم کرتے تھے

کھلے عام فحاشی اور بے حیائی کرتے تھے

حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کا مذاق اڑاتے تھے


قرآن میں ارشاد ہے:

> "کیا تم مردوں کے پاس جاتے ہو اور راستوں میں ڈاکہ ڈالتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو؟"
(سورۃ العنکبوت: 29)




---

حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت


حضرت لوط علیہ السلام نے صبر و حوصلے کے ساتھ اپنی قوم کو بار بار سمجھایا:

اللہ سے ڈرو

اپنی بیویوں کے ساتھ جائز تعلق رکھو

برائی اور فحاشی سے توبہ کرو


لیکن قوم نے ان کی بات نہ مانی، بلکہ کہا:

> "اے لوط! اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں اپنی بستی سے نکال دیا جائے گا۔"
(سورۃ الاعراف: 82)




---

مہمانِ الٰہی اور قوم کا شرمناک رویہ


ایک دن اللہ کے فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر آئے۔ قوم کے لوگ ان مہمانوں کو دیکھ کر برائی کے ارادے سے گھر کے دروازے پر جمع ہو گئے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں اللہ کا خوف دلایا اور کہا:

> "یہ میری بیٹیاں (یعنی تمہاری عورتیں) موجود ہیں، ان سے نکاح کر لو، یہ تمہارے لیے پاکیزہ ہے۔"
(سورۃ ہود: 78)



لیکن قوم اپنی ضد پر قائم رہی۔


---

اللہ کا عذاب نازل ہوا

جب ان کی ہٹ دھرمی آخری حد کو پہنچی تو اللہ کا حکم آیا کہ:

حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے اہلِ ایمان کو رات کے وقت بستی سے نکال لو

ان کی بیوی کو پیچھے چھوڑ دو کیونکہ وہ بھی کافروں میں شامل تھی


پھر اللہ کا عذاب نازل ہوا:


زمین کو الٹا دیا گیا

آسمان سے مسلسل پتھروں کی بارش ہوئی

پوری بستی صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی


قرآن میں آیا ہے:

> "اور ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کر دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسائی۔"
(سورۃ ہود: 82)




---

حضرت لوط علیہ السلام کی نجات


اللہ نے حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے اہلِ ایمان ساتھیوں کو بچا لیا۔ ان کی بیوی چونکہ کافروں میں شامل تھی، وہ بھی عذاب میں ہلاک ہو گئی۔


---

قوم لوط کے واقعے سے حاصل ہونے والے اسباق


1. فطرت کے خلاف عمل تباہی کا سبب ہے – اسلام نے غیر فطری تعلقات کو حرام قرار دیا ہے۔


2. انبیاء کی دعوت کو ٹھکرانے کا انجام عذاب ہے – ہر نبی نے اپنی قوم کو پاکیزگی کی دعوت دی، مگر انکار کرنے والوں کو اللہ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑا۔


3. توبہ اور اصلاح کا دروازہ بند نہیں – اگر قوم لوط توبہ کر لیتی تو بچ سکتی تھی۔


4. خاندانی رشتہ ایمان کے بغیر بے فائدہ ہے – حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔




---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت لوط علیہ السلام کس نبی کے بھتیجے تھے؟


جواب: وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔

سوال 2: قوم لوط کا سب سے بڑا گناہ کیا تھا؟


جواب: ان کا سب سے بڑا گناہ غیر فطری عمل یعنی عملِ قوم لوط تھا۔

سوال 3: اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو کیسے ہلاک کیا؟


جواب: ان کی بستی کو الٹا دیا گیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔

سوال 4: حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کیوں ہلاک ہوئی؟


جواب: کیونکہ وہ کافروں میں شامل ہو گئی تھی اور ایمان نہیں لائی۔

سوال 5: قوم لوط کی بستیاں کہاں تھیں؟


جواب: ان کی بستیاں موجودہ بحیرۂ مردار (Dead Sea) کے قریب واقع تھیں۔

اتوار، 27 اپریل، 2025

حضرت خضر علیہ السلام





حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ قرآن (سورۃ کہف آیت 60-82) کی روشنی میں۔ اس بلاگ میں اس واقعے کی مکمل تفصیل، اسباق اور حکمتیں شامل ہیں جو آج بھی ہماری زندگی کے لیے راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
 







حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ



تمہید


قرآن کریم میں کئی قصے بیان کیے گئے ہیں جو محض تاریخ نہیں بلکہ ہدایت اور نصیحت کے لیے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا ہے جو سورۃ کہف میں تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ انسان چاہے کتنا ہی علم والا ہو، اللہ کا علم اس سے کہیں زیادہ وسیع اور لا محدود ہے۔


---

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش برائے علم


ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو وعظ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب سے بڑے عالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے وحی فرمائی کہ ان سے بھی زیادہ علم والا ایک بندہ موجود ہے۔ یہ سن کر موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی کہ وہ اس بندے سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ دو دریاؤں کے سنگم پر ایک مچھلی لے کر جاؤ، جہاں وہ مچھلی غائب ہو جائے، وہیں وہ بندہ موجود ہو گا۔


---

حضرت یوشع بن نون کے ساتھ سفر


حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے خادم یوشع بن نون کے ساتھ روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک مقام پر مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی۔ یہی وہ نشان تھا جو حضرت خضر علیہ السلام تک پہنچنے کی علامت تھا۔ جب انہیں یہ یاد آیا تو وہ فوراً واپس پلٹے اور حضرت خضر علیہ السلام کو پا لیا۔


---

حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات


قرآن کہتا ہے:

> "پھر انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت دی تھی اور اسے اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔"
(سورۃ کہف: 65)



حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
"کیا میں آپ کی پیروی کروں تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟"

خضر علیہ السلام نے فرمایا:
"آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔"

لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وعدہ کیا کہ وہ صبر کریں گے۔


---

تین واقعات اور ان کی حکمتیں


1. کشتی میں سوراخ کرنا


خضر علیہ السلام نے غریب ملاحوں کی کشتی میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا کہ یہ تو انہیں نقصان پہنچانے والا عمل ہے۔
بعد میں خضر علیہ السلام نے وضاحت کی کہ:

> "یہ کشتی چند غریب آدمیوں کی تھی، اور ان کے پیچھے ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی چھین لیتا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس میں نقص ڈال دوں تاکہ بادشاہ اسے نہ چھینے۔"




---

2. لڑکے کا قتل


راستے میں ایک لڑکے کو دیکھ کر خضر علیہ السلام نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے شدید اعتراض کیا۔
لیکن خضر علیہ السلام نے بتایا:

> "یہ لڑکا بڑا ہو کر اپنے مومن والدین کے لیے فتنے کا باعث بنتا، اس لیے اللہ نے چاہا کہ انہیں اس کے بدلے ایک نیک اور صالح بچہ عطا کرے۔"




---

3. دیوار کی تعمیر


ایک بستی میں لوگوں نے مہمان نوازی سے انکار کیا، لیکن خضر علیہ السلام نے وہاں ایک گرتی ہوئی دیوار سیدھی کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ اس کا معاوضہ لے سکتے تھے۔

خضر علیہ السلام نے وضاحت کی:


> "یہ دیوار دو یتیم بچوں کی تھی، اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا۔ ان کا باپ نیک آدمی تھا، اللہ نے چاہا کہ یہ بچے بڑے ہوں اور اپنا خزانہ خود نکالیں۔"




---

جدائی اور حقیقت کا انکشاف


ان تینوں واقعات کے بعد خضر علیہ السلام نے کہا:

> "یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے۔ اب میں آپ کو وہ حقیقت بتا رہا ہوں جس پر آپ صبر نہ کر سکے۔"
(سورۃ کہف: 78)



یوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اندازہ ہوا کہ اللہ کا علم انسان کے علم سے کہیں بڑھ کر ہے اور ہر کام کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے۔


---

حاصل ہونے والے اسباق


1. علم کی وسعت – انسان کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو، اللہ کے علم کے سامنے کچھ بھی نہیں۔


2. صبر کی اہمیت – ہر معاملہ بظاہر برا لگ سکتا ہے لیکن اس میں اللہ کی حکمت چھپی ہوتی ہے۔


3. رحمت الٰہی – کبھی اللہ چھوٹا نقصان دیتا ہے تاکہ بڑا نقصان نہ ہو۔


4. اولاد کا امتحان – کبھی اللہ نافرمان اولاد کو لے لیتا ہے تاکہ والدین کو بہتر عطا کرے۔


5. نیکی کا اثر نسلوں تک – نیک والدین کی برکت سے ان کی اولاد کی حفاظت بھی اللہ فرماتا ہے۔




---

سوالات و جوابات (FAQ)


سوال 1: حضرت خضر علیہ السلام کون تھے؟


جواب: وہ اللہ کے ایک نیک اور برگزیدہ بندے تھے جنہیں خاص رحمت اور علم عطا کیا گیا تھا۔

سوال 2: حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے کیوں ملے؟


جواب: تاکہ وہ یہ سیکھیں کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور ہر کام کی حکمت انسان کی سمجھ سے بالاتر ہو سکتی ہے۔

سوال 3: کشتی میں سوراخ کرنے کی کیا حکمت تھی؟


جواب: تاکہ غریب ملاحوں کی کشتی ظالم بادشاہ کے قبضے میں نہ جائے۔

سوال 4: خضر علیہ السلام نے لڑکے کو کیوں قتل کیا؟


جواب: تاکہ مومن والدین ایک نیک اور صالح اولاد سے نوازے جائیں اور یہ بچہ ان کے لیے فتنہ نہ بنے۔

سوال 5: دیوار کیوں درست کی گئی؟


جواب: کیونکہ اس کے نیچے یتیم بچوں کا خزانہ چھپا تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت خضر علیہ السلام، سورہ کہف، قرآن کی کہانیاں، اسلامی واقعات، حکمت و علم، سبق آموز قصے

امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت اور اصلاح

  یہ بلاگ امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت، زوال کے اسباب، بیداری کی ضرورت، اور قرآن و سنت پر عمل کے ذریعے اصلاح کے راستے پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے ...